دوستوقرآن مجید میں خالق کائنات نے ایک ارشاد فرمایا ہے
جولوگ ہمارے ذکرسے منہ موڑتے ہیں ہم ان کارزق تنگ کردیتے ہیں اور قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جولوگ ہمارے ذکرسے منہ موڑتے ہم ان کا رزق تنگ کر دیتے ہیں۔
مگرمیں نے بارہا ایسے لوگ دیکھے ہیں جوکبھی مسجد نہیں گئے دوسراکلمہ تک نہیں آتا دین کاسرے سے پتہ ہی نہیں مگردولت شہرت بے پناہ ہے، کڑکتی دھوپ اور پسینے میں شرابور ہم فٹ پاتھوں پرچلتے ہیں اور وہ یخ کاروں میں زناٹے بھرتے ہمارے پاس سے گزرتے ہیں، ہم کوٹھنڈا پانی بمشکل ملتا ہے اور وہ منرل واٹر سے پیاس بجھاتے ہیں۔
جوقرآن کہہ رہا ہے بات اس کے برعکس کیوں ہورہی ہے؟
یہ سوال میرے سامنے ایک غیرمسلم نےبھی اٹھایا
میرے ناقص علم کے مطابق اسکاجواب یہ ہے کہ رزق صرف دولت شہرت اور کھانے پینے کا نام نہیں ہے
دلی سکون و اطمینان کانام ہے اوراسی کا نام زندگی ہے
مثال کے طورپر اگر آپ کے پاس قارون کاخزانہ ہے مگر دلی سکون نہیں ہے
آپ اچھی طرح کھا پی اورسو نہیں سکتے مزاج میں بے چینی ہے
عالی شان بنگلہ اورسخت سکیورٹی کے باوجود آپ کے دل میں انجانا سا کھٹکا رہتا ہے
یا آپ کوایسی بیماری لگ گئی ہے جس میں آپ چائے رس کے علاوہ کچھ اورکھا پی نہیں سکتے تو آپ ایسی عذاب زندگی سے مر جانا پسند کریں گے کیونکہ زندگی صرف سکون کا نام ہے اور سکون صرف اللہ کے ذکرمیں ہے جو دلوں کو روشن کردیتا ہے " جولوگ ذکرسے منہ موڑتے ہیں دنیا ان کیلئے حسین سراب ثابت ہوتی ہے۔
پانچ وقت کی نماز پڑھنے والے ذکرو اذکارکرنے والے میں نے ایسے بہت سارے لوگ دیکھے ہیں جن پرغربت کی انتہا ہے " مگرپھر ان کے چہروں پر وہ اطمینان ہے جو امیر امارت کی چوٹی کو چھو کر بھی نہیں حاصل کرسکا " سونتیجہ یہ اخذ ہواکہ اس آیت میں رزق پورے نظام زندگی کی ضرورت سکون اور اطمینان کوکہاگیا ہے جو زندگی کو گلذار اورشخصیت کو پروقار بناتا ہے " اگرمیں نے تشریح میں غلطی کی ہے تومہربانی فرماکر میری اصلاح ضرور فرمائیں۔۔!