ایک واقعہ نظر سے گزرا تو آجکل کے حالات کے مطابق لگا تو سوچا آپ سب سے بھی شیئر کردوں کہ کیا آج واقع ھی ایسا نہیں ھے؟
ہمارے شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر عیسائیوں کا ایک چک ہے۔ وہاں ایک ادھیڑ عمر (85 سال عمر) عورت کا وقت نزاع قریب آیا تو ایک معزز اور دیندار بزرگ چند نمازیوں سمیت انکی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔
وہاں پہنچ کر اسکی حال خیر دریافت کرنے کے بعد کہا کہ
بی بی: آپ نے اتنی عمر گزاری ہے، کیا آپ نہیں سمجھتیں کی اسلام ہی واحد مذہب برحق ہے جس میں دونوں جہانوں کی فلاح ہے۔
وہ بولی تمہارا مطلب ہے میں تمہارا کلمہ پڑھ لوں؟ بزرگ کہنے لگے جی ہاں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی آخرت سنور جائے۔
وہ کہنے لگی: پڑھ لیتے ہیں کلمہ مگر ہمیں کس نبی کا کلمہ پڑھاؤ گے؟ نوری کا یا بشری کا؟
میں نے اپنی ہوش سے لیکر آج تک یہی دیکھا ہے کہ تم لوگوں نے اپنے نبی کو اختلافات کا محور ہی بنائے رکھا ہے۔ نوری یا بشری کا اختلاف، زندہ یا فوت کا اختلاف، غیب جاننے یا نہ جاننے کا اختلاف۔ تم لوگ جب کسی ایک بات پہ متفق ہو کے آجاؤ تو پڑھ لونگی کلمہ۔
لیکن پھر ایک مسئلہ ہوگا، کلمہ پڑھنے کے بعد آدھا شہر کہے گا سنی ہو جا آدھا کہے گا وھابی ہو جا، پھر میں کدھر جاؤں گی؟ تم لوگوں نے تو دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ اور جس کے پاس جتنا ٹکڑا آیا وہ پہلے تو اسے باپ دادا کا فرقہ، پھر انا کا مسئلہ بنا کر اتنے سے دین کی ہی پرستش کرتا چلا گیا۔۔۔
دوستو یہ تو تھے فرقہ واریت کے معاشرتی بگاڑ، اور آخرت میں خواری علیحدہ ہوگی۔
کیونکہ آج ہم اتنا دفاع اپنے مذہب کا نہیں کر رہے جتنا اپنے اپنے فرقے کا کر رہے ہیں۔
کیا ضرورت اس امر کی نہیں ھے کہ ھم سب فرقہ واریت کو چھوڑ چھاڑ کر ایک ھوجائیں، اور مسلک کا دفاع کرنے کے بجائے اپنے دین کا دفاع کرنے والے بن جائیں؟
خدارا ایک ھوجاو اس سے قبل کہ دشمن تم کو صفحہ ہستی سے مٹادے اور تم کو نیست و نابود کر دے، آپکو اللہ کا واسطہ ھے ایک ھو جاو نیک ھو جاو، نمازی بن جاو۔۔
اور اللہ پاک سے ہمیشہ صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق مانگتے رہیئے۔ وہ سننے والا ہے مہربان ہے۔