سینیٹ انتخابات اپنی تمام ترخامیوں اور ہارس ٹریڈنگ کی آوازوں کے شور کے سائے تلے بالآخر اپنے اختتام کو پہنچے۔ ان انتخابات میں امیدواروں کے چناو اور ہارس ٹریڈنگ کے معاملات پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن سازشوں میں گھری جمہوریت کیلئے سینیٹ کے انتخابات کا منعقد ہو جانا بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر جمہوری عمل جاری و ساری رہا تو امید غالب ہے کہ بتدریج اس عمل میں موجود نقائص اور ہارس ٹریڈنگ جیسی روایات بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی۔ سینیٹ کے انتخابات میں اس بار جو نئی چیز نظر آئی وہ روایت کے برعکس پنجاب سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کا اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئیے کے ساتھ کھڑا ہونا اور بلوچستان کے ممبران اسمبلی کا ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانئیے کے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔ غالبا یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پنجاب کے صوبے کے ممبران اسمبلی نے پس پشت قوتوں کی ایما پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے بجائے ایسٹیبلیشمنٹ کے زیر عتاب نواز شریف کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔
آصف زرداری صاحب نے پہلے بلوچستان کے ممبران اسمبلی کو خرید کر اور پھر سندھ میں جس طریقے سے ایم کیو ایم کے ممبران اسمبلی کو زر کے عوض خریدا اس سے شاید وقتی طور پر انہوں نے سینیٹ میں اپنی عددی اکثریت تو بڑھا لی ہے لیکن جمہوری اقداروں اور پیپلز پار ٹی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ شاید آصف زرداری یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اب عوام سندھ کے علاوہ اور کہیں بھی پیپلز پارٹی کو موقع دینے کو تیار نہیں ہے اسی لئیے کبھی روپے پیسے کی چکا چوند اور کبھی نادیدہ قوتوں کا آلہ کار بن کر وہ اقتدار سے کسی نہ کسی صورت نتھی رہنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب فاٹا کے سینیٹرز کے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آئیں ہیں انہوں نے نواز شریف کی سیاسی و جمہوری اقدار پر سوالات کھڑے کئیے ہیں۔ اگر فاٹا کے سینیٹرز کو منتخب کروانے میں روپے پیسے کی چکا چوند کا کمال ہے تو نواز شریف اور ان کی جماعت نے بھی جمہوری اقداروں کو کمزور کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری غلام سرور کی پنجاب سے جیت بھی یہ بات عیاں کرتی ہے کہ تحریک انصاف بھی ہارس ٹریڈنگ کی اس مکروہ دوڑ میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہے۔
خود جناب عمران خان نے جس طرح ایک بار پھر پارلیمان کو بے توقیر کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان انتخابات کے عمل پر یقین نہیں رکھتے اور چور دروازے سے پس پشت قوتوں کی بیساکھیوں کی مدد سے اقتدار میں آنے کے خواہاں ہیں۔ سیاستدانوں کی کوتاہیاں اور سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے عمل کو روکنے کیلئے موثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے اور پارلیمان کو اب جلد سے جلد یہ قانون سازی کرنی ہو گی تا کہ چند جماعتوں یا شخصیات کی وجہ سے پارلیمان اور جمہوریت کی ساکھ پر آئندہ کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ خیر جمہوری نظام کی یہ خامیاں اپنی جگہ لیکن اس نظام کی بدولت موجودہ سینیٹ کے انتخابات میں غیر جمہوری عناصر اور پس پشت قوتوں کی شکست ایک انتہائی خوش آئند عمل ہے۔ ماضی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پس پشت قوتیں انتہائ آسانی سے اپنے مقاصد اور اہداف پورے کر لیا کرتی تھیں۔ زیادہ دور مت جائیے پرویز مشرف کا ہی دور دیکھ لیجئے جب جنرل مہدی اور خفیہ اداروں نے عوامی منتخب نمائندوں کو ڈرا دھمکا کر قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود ظفر الہ جمالی کو محض ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم منتخب کروا لیا تھا۔ سینیٹ کے موجودہ انتخابات میں بھی بھرپور کوشش کی گئی کہ کسی بھی طور مسلم لیگ نون کو اکثریت حاصل نہ کرنے دی جائے۔
پہلے بلوچستان کی صوبائ اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کی عددی اکثریت کو پس پشت قوتوں نے زرداری کے ذریعے ختم کر کے صوبائی حکومت کا تختہ الٹا اور پھر سینیٹ انتخابات سے دو ہفتے قبل عدالت کے ذریعے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل کروا کر مسلم لیگ نواز کے سینیٹ کے امیدواروں کی نامزدگی پارٹی ٹکٹ کی بنیاد پر کالعدم قرار دلوائی گئی۔ نتیجتا مسلم لیگ نواز کے ان امیدواروں کو آزاد حیثیت سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔ پس پشت قوتوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی اور سینیٹ میں نواز لیگ کے امیدواروں کی آزاد حیثیت سے شرکت نہ صرف پنجاب میں نواز لیگ کے اندر دھڑے بندی کا باعث بنے گی بلکہ سینیٹ میں ان کے امیدوار بھی آزاد حیثیت سے مطلوبہ نشستوں پر کامیاب نہیں ہونے پائیں گے۔ لیکن پس پشت قوتوں کی توقعات کے برعکس مسلم لیگ نواز نے سینیٹ کے انتخابات میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کئیے بلکہ اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر سینیٹ میں اپنا چئیر مین منتخب کروانے کی پوزیشن میں بھی آ گئی۔ اگر مسلم لیگ نواز اپنا چئیرمین نامزد نہ بھی کروائے تو نئے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں کنگ میکر کا کردار ضرور ادا کرے گی۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کیلئے یہ کامیابی نہ صرف ان کے بیانئیے اور سیاست کی کامیابی ہے بلکہ پارلیمان کی بالادستی اور ووٹ کے تقدس کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم بھی ہے۔
گو مسلم لیگ نواز کو مزاحمتی سیاست اور پس پشت قوتوں کے ساتھ اس جنگ کی قیمت بلوچستان کی حکومت گنوانے اور بلوچستان سے تقریبا سینیٹ کی سات نشستیں نہ حاصل کر پانے کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے لیکن اس کے باوجود سینیٹ میں سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر اس جماعت کا ابھر کر سامنے آنا اس بات کا غماز ہے کہ نادیدہ قوتوں کو مسلم لیگ نون اپنی اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ سیاست اور بیانئیے کے دم پر بیک فٹ پر دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ یعنی بات گھوم پھر کر وہیں آن پہنچی کہ سیاستدانوں کی تقدیر کے فیصلے نہ تو عدالتوں کے ذریعے کروائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو یا ان کی جماعتوں کے وجود کو عدالتیں یا پس پشت قوتیں ختم کر سکتی ہیں۔ چند روز قبل ہی معزز سہریم کورٹ نے نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہکی کے کیس کے تفضیلی فیصلے میں کہا تھا کہ جو شخص صادق اور امین نہیں رہا اور ناہل کر دیا گیا ہے اسے کنگ میکر بننے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ سینیٹ کے ان انتخابات کے نتائج نے تو بہر حال اس فیصکے کے برعکس نواز شریف کی کنگ میکر کی پوزیشن کو اور مستحکم کر دیا ہے۔ شاید اسی لئیے کہا جاتا ہے کہ عدالتیں خود نہیں بولتیں بلکہ عدالتوں کے فیصلے بولا کرتے ہیں۔ اور جب فیصلے عوامی فورم سے لیکر ہارلیمان کے فورم تک مسترد ہونے لگ جائیں تو پھر شاید ان فیصلوں کی کوئی وقعت نہیں رہ جایا کرتی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے سینیٹ کے انتخابات لڑنے پر مجبور کروانے والی قوتوں نے ملک کی سب سے بڑی اکثریتی جماعت کو حق نمائندگی سے محروم کرنے کی سازش کر کے ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ تو کیا لیکن اس باب کو وہ اپنے نام کرنے میں ناکام رہے۔ جمہوری قوتوں کی سینیٹ کے انتخابات میں فتح سے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر ایسٹیبلیشمنٹ اور اس کے بیانئیے کی پسپائی ہوئی ہے۔ اس فتح کے بعد اب جمہوری قوتوں کو سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کرتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ کے عمل کو روکنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ بتدریج جمہوریت کے عمل کو مضبوط بناتے ہوئے اس کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے ایک مثالی جمہوریت کے قیام کی منزل کی طرف بڑھا جا سکے۔