سینیٹ میں بالآخر عمران خان اور زرداری کے سیاسی نکاح کے بعد ایسٹیبلیشمنٹ نے فتح کے جھنڈے گاڑ ہی دیے۔ صادق سنجارانی اور سلیم مانڈی والا کو چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین منتخب کروا کر ہماری ایسٹیبلیشمنٹ نے اپنی ہی سرزمین کو فتح کرنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایوان بالا میں اپنی کٹھ پتلیوں کو منتخب کروا کر سینیٹ کو بھی فتح کر لیا۔ چونکہ عمران خان پہلے دن ہی سے غیر جمہوری قوتوں کا مہرہ ہے اس لئیے اس کے استعمال ہونے پر تو کوئی تعجب نہیں ہوتا البتہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی نے جس انداز میں ایسٹیبلیشمنٹ کے پاوں کو چوما ہے اس سے جمہوری قوتوں میں سے ایک قوت کم ہو گئی ہے۔ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی آج سے ایسٹیبلیشمنٹ کی حامی جماعت جانی اور مانی جائے گی جو اقتدار میں آنے کی خاطر کسی بھی اصول کو قربان کر سکتی ہے۔
خیرآصف زرداری کو ایسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں پر یہ تازہ بیعت شارٹ ٹرم میں فائدہ تو ضرور دے گی اور ان قوتوں کی پشت پناہی پر وہ اب شاید پنجاب میں کسی حد تک دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب بھی ہو جائیں گے لیکن جو داغ زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کے دامن پر لگایا ہے وہ اب جیے بھٹو کے نعروں سے صاف نہیں ہو گا۔ اب اگلے پلان کے مطابق نواز شریف اور اس کی بیٹی کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔ بابا رحمتے کی مدد سے شاید نواز شریف کی تقاریر اور پارٹی بینرز پر تصاویر لگانے پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ناہنجار و نافرمان نواز شریف کو سبق سکھانے کیلئے اس کی جماعت کے حصے بخرے کر کے زرداری لیگ اور عمران خان کی پنجاب میں سیٹ ایڈحسٹمنٹ کروائی جائے گی۔ عوام کو پردہ سکرین پر احتساب اور توہین مذہب کی فلمیں چلوا کر یہ باور کروایا جائے گا کہ ایسٹیبلیشمنٹ اور ملا کے کو چیلنج کرنے والا بیانیہ دراصل وطن دشمن اور مذہب مخالف ہے اس لئیے عوام کے وسیع تر مفاد میں اس بیانئِے کی علمبردار جماعتوں کو سیاسی میدان سے "ناک آوٹ " کرنا ضروری ہے۔
عمران زرداری اتحاد کے فضائل گنوائے جائیں گے اور قوم کو بتایا جائے گا کہ زرداری اور عمران ہی دراصل ان کے نجات دہندہ ہیں۔ اٹھارویں ترمیم جو صوبوں کو بہت حد تک خود مختاری دیتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق کے بجائے وسائل اور مالیات پر براہ راست صوبوں کو اختیار دیتی ہے دراصل دل یزداں میں کانٹے کی مانند کھٹکھتی ہے اور آئندہ انتخابات کے بعد سب سے پہلے اس ترمیم میں تبدیلی کر کے مال پانی پر ایک دفعہ پھر وفاق کو اجارہ داری دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ آخر کو ناہنجار صوبے نہ صرف مالی اعتبار سے خود مختار ہو چکے ہیں بلکہ ہماری ایسٹیبلیشمنٹ کے حصے میں مال پانی بھی زیادہ نہیں چھوڑتے۔ معزز آرمی چیف چونکہ اس جانب اشارہ بھی کر چکے ہیں اس لئیے اب عمران زرداری اور ہمنواوں پر یہ فرض ہو چکا ہے کہ ہر ممکن طریقے سے صاحب بہادر کو کھٹکھنے والی اس "غیر معقول" آئنیی ترمیم میں تبدیلی لائیں۔ اگر یہ دونوں حضرات مقدس گائے کی " مالش " حسب منشا کرنے میں ناکام بھی رہیں تو بابا رحمتے آخری امید کے طور پر موجود ہے۔ سینیٹ انتخابات سے حسب منشا نتائج حاصل کرنے والی قوتوں کے منصوبے اپنی جگہ اور ان کی وقتی کامیابیاں بھی ایک طرف، لیکن ایک حقیقت اور بھی ہے جسے نہ تو زور زبردستی سے جھٹلایا سکتا ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کیا سکتا ہے۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں پارلیمان کی بالادستی ووٹ کی عزت اور ایسٹیبلیشمنٹ کے سیاسی و کاروباری کردار پر اب گلی محلے میں بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔
ملک کی ایک بہت بڑی آبادی اب ایسٹیبلیشمنٹ کو مقدس گائے کے رتبے پر فائز نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ سوچ یا نظریہ جو سول بالادستی اور جمہوریت کے پھلنے پھولنے پر یقین رکھتا ہے اس کو نہ تو جبری طور پرلاپتہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی صفحہ ہستی سے مٹوایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے نواز شریف اور اس کی جماعت کو زور زبردستی کر کے دبا لیا جائے لیکن یہ نظریہ کسی بھی صورت دبایا نہیں جائے گا آج اس کا علم نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے تو کل کسی اور کے ہاتھوں میں ہو گا۔ جبر اور زور زبردستی نظریات اور عقائد کو مزید پختہ بھی کرتے ہیں انہیں جلا بخشنےکا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ اگر آج کے دور جدید میں سیاسی انجیئنرنگ کے ذریعے ایک " کنٹرولڈسینیٹ " معرض وجود میں لا کر اس خوش فہمی میں جیا جائے کہ جمہوریت کو مکمل طور پر کنٹرول کرتے ہوئے مخالف بیانئے کو بوٹوں تلے روند دیا جائے گا تو یہ خوش فہمی دل کے بہلانے کا سامان تو ہو سکتی ہے یہ خواہش حقیقت میں نہیں بدل سکتی ہے۔ کٹھ پتلی چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین لا کر مسلم لیگ نون کے الیکٹبلز کو اپنی کٹھ پتلیوں جماعتوں میں شامل کرنے کیلئے للچایا اور ورغلایا ہے تو جا سکتا ہے لیکن پنجاب سے بلند ہوتی عوام کی اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ آواز کو اس عمل سے دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ بلاشبہ اداروں کے اختیارات میں توازن اور عوام کے حق حکمرانی کی یہ جنگ طویل بھی ہے اور اعصاب شکن بھی ہے، لیکن وقتی فتوحات یا شکستوں سے اس جنگ کا فیصلہ نہیں ہونا۔
نواز شریف یا اس کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں یا نہیں یہ بات قطعی طور پر بھی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ جو بیانیہ بالادست قوتوں کے خلاف تیار ہو چکا ہے اس کا پھلنا پھولنا دراصل اس جنگ کی ہار یا جیت سے مشروط ہے۔ اگر نواز شریف اور ان کی جماعت صیح معنوں میں جمہوری بیانئیے کے عملبردار ہیں تو ان کیلئے حصول اقتدار کوئی خاص معنی نہیں رکھنا چائیے کہ جمہوری بیانئیے کو تقویت اپوزیشن میں رہ کر بھی پہنچائی جا سکتی ہے۔ جو قوتیں "کنٹرولڈ ڈیموکریسی " کے ذریعے اس وطن پر قابض ہیں ان کے پاس موجود حب الوطنی اور توہین کے ہتھیاروں کو شکست دینے کیلئے رائے عامہ کوبدل کر علم و آگہی کے اجالوں کے ذریعے شعور کو اجاگر کرنا لازم و ملزم ہے۔ عوام میں شعور یقینا بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ سینیٹ کو عوامی حلقوں میں "عسکری سینیٹ " کا نام دیا جا رہا ہے۔ محترم چیف جسٹس جب سول اداروں کے دورے کرتے ہیں یا عوامی نمائندوں اور سول بیوروکریسی کو سزائیں سناتے ہیں تو عوامی حلقے ان سے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی، بحریہ ٹاون کی خورد برد کے حوالے سے بھی انصاف کے دہرے معیار پر سوالات کرتے ہیں۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا معاملہ ہو، عدنان کیانی کی کرپشن یا این ایل سی سکینڈل، دلیہ کھاد اور سیمینٹ کی فیکٹریاں یا پھر فنون لطیفہ کے شوق کی تسکین کا باعث فلمیں اور گیت، اب عوامی حلقوں سے ان تمام چیزوں پر تنقید کا اظہار کیا جاتا ہے اور یہ بذات خود ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کسی کٹھ پتلی یا بندوق کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کا باعث جمہور پسند بیانیہ ہے۔ سینیٹ میں کٹھ پتلیاں بٹھانے، انتخابات کو مینیج کرنے یا کسی کو پلس اور مائنس کرنے سے عوام کے حق حکمرانی کی لڑائی کو نہ تو جیتا جا سکتا ہے اور نہ ہی شعور و آگہی کو مینڈیٹ کی مانند ہائی جیک کیا جا سکتا ہے۔ ہیوگنے وکٹر ڈیبز نے کہا تھا کہ "ہر دور میں ظالم اور جابرقوتیں وطن پرستی اور مذہب کا غلاف اوڑھ کر عوام کا استحصال کرتی چلی آئی ہیں"۔ اس قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو کم سے کم عوام کو اب استحصالی طبقات کی پہچان ہونا شروع ہو چکی ہے جو کہ ایک خوش آئند امر بھی ہے اور استحصالی قوتوں کے استحصال کے خاتمےکی جانب ایک مثبت آغاز بھی ہے۔ کٹھ پتلییوں پر مشتمل سینیٹ وجود میں آئے یا اگلی آنے والی حکومت، اس بات سے جمہور پسندوں اور جمہوری بیانئیے کو نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ رقص تو زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ اور زنجیروں کا شور اس سکوت کو توڑ دیا کرتا ہے جو استحصال پرمبنی ہوتا ہے۔