کچھ انسانوں کا دنیا سے چلے جانا انسانیت کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ ایک ایسا نقصان جس کے کرب اور دکھ کے اظہار کیلئے الفاظ گونگے اور بانجھ دکھائی دیتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر بھی ان شخصیات میں سے ایک تھیں۔ انسانی حقوق کی موثر ترین آواز اور علمبردار، قانون اور دستور کی محافظ، آمریت کو چیلنج کرنے والی نڈر خاتون، عقائد اور وطن پرستی کے چورن فروشوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والی اس نڈر اور بے باک خاتون کے جانے سے وطن عزیز میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا ناممکن ہے۔ عاصمہ جہانگیر کو ہم نے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک ہمیشہ ظلم ناانصافی اور شدت پسندی کے خلاف برسر پیکار دیکھا۔ مظلوموں کے حق میں کیسے صدا بلند کی جاتی ہے، کیسے آمروں کے خلاف ڈٹا جاتا ہے کس طرح مذہب کے نام پر وطن میں نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف حق کی آواز بنتے ہوئے ڈٹ جایا کرتے ہیں۔ کس طرح ان اداروں کے بیانیئے اور پالیسیوں کو چیلنج کیا جاتا ہے جن پر سوال اٹھانے کا مطلب بھی زندانوں میں لاوارث موت مرنا ہوتا ہے یہ تمام اسباق عاصمہ جہانگیر نے اس وطن عزیز میں بسنے والوں کو سکھائے۔ بد ترین آمر ضیاالحق کے دور میں جب بڑے بڑے انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپین، صحافی، سیاستدان، اور قانون دان گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اس وقت یہ عورت تن تنہا سڑکوں پر مزاحمت کا استعارہ بنے قید و بند کی سہولتیں برداشت کرتی رہی۔
جب مذہب کے ٹھیکیداروں نے توہین کی آڑ میں اقلیتوں اور مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کیا تو یہ عورت جان کی پرواہ کئیے بغیر ان قوتوں کے آگے ڈٹ گئی۔ مشرف کے بام عروج میں اس عورت نے اس کی آمریت کو للکارا اور جب امریکہ کی منشا پر پاکستانی شہریوں کو لاپتہ کر کے بنا کسی مقدمے کے امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا تو یہ عورت ان افراد سے نظریاتی اختلافات کے باوجود ان کے آئینی حقوق کیلئے آمر کے خلاف ڈٹ گئی۔ مشرف دور میں جب ججز کو نظر بند کیا گیا تو اس عورت کا وکلا تحریک چلانے میں کلیدی کردار رہا۔ اسٹریٹیجک اثاثوں کے نام پر شدت پسندوں کو پالنے، سیاست میں مداخلت، کاروباری ادارے چلانے، اور ہمسایوں سے نفرت پر مبنی بیانئے کے حوالوں سے اس نڈر خاتون نے ہمیشہ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ پر کڑی تنقید کی۔ جن قوتوں کے خلاف بڑے بڑے نامور نام زبان کھولتے بھی کتراتے تھے یہ عورت بنا کسی خوف کے ان کے آگے سینہ سپرد ہو جاتی تھی۔ خواتین کو ان کی پسند سے شادی کی اجازت دینے کا معاملہ ہو یا عورتوں کی گواہی کو آدھا تسلیم کرنے کے خلاف جنگ ہو یا بدترین آمر کا متعارف کروائے گئے حدود آرڈیننس کے خلاف مزاحمت، احمدی حضرات کے بے رحمانہ استحصال کی بات ہو یا جمہوریت کی بالادستی کی جنگ عاصمہ جہانگیر ہمیشہ علم بغاوت بلند کرتے ہوئے مخالف قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہیں۔
ہم نے سنا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے جو اپنے باشندوں سے ایک ماں کی طرح شفقت اور محبت کے ساتھ بلا امتیاز پیار کرتی ہے۔ ہم نے ریاست کو تو کبھی ماں کے روپ میں نہیں دیکھا لیکن عاصمہ جہانگیر کو یہ ریاستی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہمیشہ ریاست میں بسنے والوں کیلئے ایک شفیق اور مہربان ماں کے روپ میں دیکھا۔ ایک ایسی ماں جو غداری، کفر، توہین اور بیرونی ایجنٹ کے طعنے سنتی رہی لیکن اپنے بچوں اور اپنی مٹی سے وفا کا رشتہ ماتھے پر شکن لائے بغیر نبھاتی رہی۔ جو جنگ بڑے بڑے سیاسی رہنما سیاسی جماعتیں اور قانون دان نہ لڑ سکے اس عورت نے وہ جنگ تن تنہا لڑی اور نہ جانے کتنے ہی ان گنت گونگوں کو اذن سخن، جرات اور حق کیلئے لڑنے کا درس سکھا گئی۔ نہ جانے یہ عورت کس مٹی سے بنی ہوئی تھی کہ بڑے سے بڑا آمر اور جابر بھی اسے جھکا نہ پایا۔ کسی قسم کا خوف یا لالچ اس کے راستے کی رکاوٹ نہ بن پایا۔ شاید قدرت عاصمہ جہانگیر جیسے انسانوں کیلئے کسی خاص ڈی این اے اور مٹی کا استعمال کرتی ہے جو عمومی طور پر عام انسانوں میں ناپید ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھی جو سقراط، منصور اور حسین کا قبیلہ ہے۔ جہاں سود و زیاں کے محدود حساب کتاب میں زندگی ضائع کرنے کے بجائے حق اور سچ کے ساتھ زندگی کو داو پر لگاتے ہوئے انسانیت کے کام آنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
صحافتی و براڈ کاسٹنگ کیرئر کے دوران بڑے بڑے ناموں سے ملاقات کا اتفاق ہوا لیکن ان کے اے جا کر معلوم ہوا کہ درحقیقت وہ بونے تھے جو قحط الرجال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے آدمیوں کے مسند پر فائز ہو گئے تھے۔ عاصمہ جہانگیر ان گنے چنے افراد میں سے تھیں جو اصل معنوں میں ایک بڑے انسان اور عظمت کے مرتبے پر فائز تھیں۔ ایک ڈاکیومینٹری کے سلسلے میں عاصمہ جہانگیر سے ہونے والی ملاقات اور وکلا تحریک کے دوران ان سے مصافحہ شاید میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور میں اپنے بچوں کو سر اٹھا کر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اپنی زندگی میں کم سے کم میں نے ایک بڑے اور عظیم انسان کی چند لمحات کی قربت کا شرف اور اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان کے جانے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس وطن کا ہر مظلوم آج یتیم ہو گیا ہے۔ ہمارے وطن میں عاصمہ جہانگیر ایک عہد کا نام ہے ایک ایسا عہد جو تاابد وطن عزیز میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا اور جس کے حوالوں کی روشنی میں ان گنت نسلیں وطن عزیز میں ظلم و جبر اور گھٹن کی فضا کے جمود کو توڑتے ہوئے سوال اٹھائیں گی اور اپنے حقوق کی پاسداری اور حصول کی جنگ جاری رکھیں گی۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ عاصمہ جہانگیر ایک نظریے کا نام ہے اور نظریے کبھی بھی مرتے نہیں ہیں پھر بھی اس عورت کے ہم میں موجود نہ رہنے کا دکھ بہت بھاری اور ناقابل برداشت ہے۔ عاصمہ جہانگیر موجود تھیں تو دل کو تسلی رہتی تھی کہ کوئی بھی اگر عقائد، نظریات یا روایات کی آڑ میں مظلوموں اور خواتین کو دبائے گا یا زیادتی کرے گا تو عاصمہ جہانگیر اس کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہوئے کسی کی حق تلفی نہیں ہونے دیں گی۔ کوئی فرد لاپتہ ہو جاتا تو دل کو امید رہتی کہ عاصمہ جہانگیر موجود ہیں شور مچا کر یا قانونی جنگ کے ذریعے اسے بازیاب کروانے میں مدد کر دیں گی۔ کوئی آمر یا پس پشت قوتیں جمہوریت پر طالع آزمائی کی کوششیں کرتیں تو امید رہتی کہ عاصمہ جہانگیر موجود ہیں پھر سے تحریک چلا کر پس پشت قوتوں کو جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گی۔ اوریا مقبول جان اور زید حامد جیسے ان گنت نفرتوں کے تاجر جب وطن عزیز میں نفرتوں اور شدت پسندی کا زہر پھیلاتے تو دل کو اطمینان رہتا کہ عاصمہ جہانگیر ہیں نا، وہ ان نفرت کے سوداگروں کے پھیلائے ہوئے اندھیروں کو ہم پر مسلط نہیں ہونے دیں گی۔ اقلیتوں کے حقوق کی حق تلفی ہوتی تو دل کو آسرا ہوتا کہ عاصمہ جہانگیر موجود ہیں وہ اقلیتوں کیلئے آواز اٹھائیں گی اور ان کے حقوق سلب نہیں ہونے دیں گی۔
آج دل ان تمام امیدوں سے خالی ہو گیا ہے یوں لگتا ہے جیسے ہم سب کی ماں ہم سے بچھڑ گئی ہے۔ اور اب تاریکی اور جہالت کے اندھیروں سے لڑنے کیلئے نہ تو وہ مہربان ماں موجود ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نعم البدل ہمارے پاس موجود ہے۔ ویسے بھی بھلا ماں کا نعم البدل کہاں ملتا ہے۔ نفرتوں کے سوداگر جو عاصمہ جہانگیر کی وفات پر ٹھٹھے مارتے ہوئے اسے ایک قادیانی نواز، کافر یاغدار کی موت قرار دے رہے ہیں ان کی کم ظرفی چھوٹے پن اور جہالت کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کے بتائے اور دکھائے گئے راستے پر چلتے ہوئے اس منزل کی جانب سفر جاری رکھا جائے جو عاصمہ جہانگیر کا خواب تھا اور جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے اور ریاست کی شکیل تھا جہاں بنا کسی رنگ نسل مذہب یا صنف کے امتیاز کے سب کو یکساں حقوق اور شخصی آزادی ہو۔ جہاں ووٹ کی قوت بندوق کی قوت پر بھاری ہو۔ جہاں قانون اور آئین کی پاسداری کی جاتی ہو اور جہاں جنگوں کو گلوریفائی کرنے اور گھٹن کی فضا کے بجائے امن محبت پیار اور زندگی کے قہقہے گونجتے ہو۔ ایک گونگے معاشرے کو گویائی بخشنے والی عورت اور بہادری جرات انصاف اور حقوق کی جنگ لڑنے کا سبق سکھانے والی عورت کو خراج تحسین پیش کرنے اور اس سے عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے اس عورت کے دکھائے گئے راستے پر چل کر کم سے کم ہم ان کا مان تو ضرور رکھ سکتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اس قبیلے کا فرد تھی جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔