ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے دو فقرے مسلسل سنتے آئے ہیں۔ پہلا فقرہ ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اور دوسرا جملہ ملک میں موجود تمام مسائل عہد حاضر کی موجودہ حکومت کی بدعنوانی اور کرپشن کے باعث ہیں اور اگر ملک کو بچانا ہے تو حکومت کو یا کسی ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو گھر بھیجنا ہو گا۔ نازک دور اور حکومت کی کرپشن کم بخت ایسے پرفریب لالی پاپ ہیں کہ انہیں خریدنے والے وطن عزیز میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے پایا لیاقت علی خان سے لیکر نواز شریف تک تمام وزرائے اعظم کی چھٹی کروا کر انہیں جبری طور پر عدلیہ یا اس دور کے سیاسی مہروں کے گٹھ جوڑ سے کبھی گھر کبھی جیل اور کبھی سیدھا اوپر بھیجا جاتا رہا۔ جبکہ اس کے برعکس وطن عزیز میں ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف جیسے آمروں نے برس ہا برس بلا شرکت غیرے آمریت کے سائے تلے اس ملک پر حکمرانی کی اور اسے مسائل کی دلدل میں دھنساتے ہی چلے گئے۔ لیکن کیا ہی عجب بات ہے کہ وطن عزیز کی تمام تر برائیوں اور مسائل کی جڑ صرف اور صرف سیاستدانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
وہ سیاستدان جو مختلف آمروں کے ادوار میں چار بائی چار کی کوٹھڑیوں میں زندگی بتاتے ہیں اور پشت پر کوڑے کھاتے ہیں۔ اور بدلے میں جب عوام کے دئیے گئے ووٹوں کی طاقت سے حکومت میں آتے ہیں تو آمروں کے ادارے سے ڈکٹیشن لینے کے پابند ٹھہرتے ہیں اور ڈکٹیشن نہ لینے کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کی مانند دار پر چڑھا دئیے جاتے ہیں یا نواز شریف کی مانند ہائی جیکر قرار دے دئیے جاتے ہیں۔ وہ قوتیں جو اس ملک کے سیاہ و سفید کی اصل مالک ہیں اور جو اس وطن کے بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ اپنے نام کروا جاتی ہیں نہ تو ان سے کوئی سوال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ کھاد دلیہ، سیمنٹ، پلاٹ ہاؤسنگ کالونیاں کی فروخت اور بنک اور مالیاتی ادارے چلانے والوں کا نہ تو کوئی آڈٹ کسی باہر کے بندے سے کروانے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کرپشن کے الزام کی سنوائی کرنے کی ہمت اس ملک کی معزز عدلیہ میں ہے۔ اوکاڑہ فارمز ہاؤس ہوں یا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی میں مالیاتی خردبرد کی شکایات، ایبٹ آباد سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹ ہو یا گمشدہ افراد کا معاملہ، ججز کی نظر بندی کا معاملہ ہو یا آئین پر شب خون مارنے کا مقدمہ، اکبر بگتی کا قتل ہو یا ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کراچی میں وکلا کو زندہ جلانے کا معاملہ ان تمام مدعوں پر نہ تو کسی بھی نام نہاد پیراشوٹ اینکر کو بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی آزاد منش جج کو ان مقدمات کی سنوائی کا خیال آتا ہے۔
لیکن سیاستدان چاہے وہ شیخ مجیب ہو یا زوالفقار بھٹو، ولی خان ہو یا بینظیر بھٹو یا پھر نواز شریف ان سب کے معاملے میں پیراشوٹ اینکرز کا ضمیر بھی بیدار ہو جاتا ہے اور آزاد منش عدلیہ کو آزادی بھی یاد آ جاتی ہے۔ کیا عجیب اور گھناؤنا مذاق ہے کہ چونکہ جمہوریت اس وطن میں پنپ نہیں پائی اور اس کی جڑیں کمزور ہیں اس لیئے اس سے وابستہ کسی بھی فرد کا احتساب چٹکی بھر میں کر کے فیصلہ بھی صادر ہو جاتا ہے جبکہ آمریت کے نام لیواؤں کے تلوے چاٹنے میں بھی فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ متضاد اور منافقانہ رویے دراصل ہمارے معاشرے کے اس باہمی نفسیات کی جانب اشارہ کرتی ہیں جسکی بنیادشخصیت پرستی، اپنے سے طاقتور کو سلام اور پرفریب سرابوں کا پیچھا کرنے کی عادت ہے۔ مجموعی طور پر ہم لوگ بنا سوچے سمجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والا معاشرہ ہیں وگرنہ اس نکتے کو سمجھنے کیلیے کسی راکٹ سائینس کی ضرورت نہیں کہ 1950 کی دہائی سے شروع ہونے والا احتساب کا ڈرامہ آج تک چہرے تبدیل کرنے اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کیلیے ہی چلایا جاتا رہا ہے۔ خیر آج کے دور جدید میں جہاں اب معلومات اور حقائق تک رسائی چٹکی بجاتے ہو جاتی ہے، اگر آپ اب بھی احتساب کے چورن کو خریدتے ہوئے صدق دل سے نواز شریف کو چور، بھٹو اور شیخ مجیب کو غدار سمجھتے ہیں تو آپ دراصل وطن عزیز کی اس اکثریت کا حصہ ہیں جو آج تک اکیسویں صدی میں ذہنی اور شعوری طور پر داخل ہی نہیں ہونے پائی۔
آئن سٹائن نے کہا تھا کہ پاگل وہ ہوتا ہے جو ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طریقے سے سرانجام دیکر یہ سوچتا ہے کہ اب کی بار نتیجہ مختلف ہو گا۔ احتساب کے چورن کی تاریخ کا مطالعہ کیجیئے اور صدق دل سے بتائیے کیا احتساب کے نام پر آج تک سوائے آمریت یا پتلی تماشے کے سوا کچھ اور بھی حاصل ہونے پایا جوکہ اب کی بار حاصل ہو جائے گا۔ آئن سٹائن کے اس قول کی روشنی میں تو احتساب کا چورن نسل در نسل خریدنے والے پاگل ٹھہرتے ہیں۔ خیر اب چونکہ بات احتساب کی ہو رہی ہے تو پرویز مشرف کا ذکر لازم و ملزم ہے۔ یہ سابق کمانڈو اور آمر آج تک بیرون ملک میں مزے سے زندگی گزار رہا ہے۔ ہے لیکن ہماری معزز عدلیہ کو اس کے جرائم کا انبار نظر ہی نہیں آتا شاید راولپنڈی کی جانب دیکھنے سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں یا پھر بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب احتساب کا نعرہ مارنے والی سیاسی کٹھ پتلیاں ہوں یا پھر ایمانداری کے بھاشن دیتے اور کرپشن کی دہائیاں دیتے عام عوام یہ سب بھی جو احتساب چاہتے ہیں اس کی حدود بھی کینٹ کی چھاؤنی سے کوسوں دور ختم ہو جاتی ہے۔
صاحبو احتساب کبھی بھی من پسند نہیں ہوا کرتا اور انصاف سب کیلئے برابر ہوا کرتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ بھٹو سولی پر چڑھایا جائے اور نواز شریف کو اٹک قلعے میں قید کر دیا جائے جبکہ سقوط ڈھاکہ کے مجرم جنرل یحیی خان اور وطن عزیز میں دہشت گردی کا ناسور پیدا کرنے والے آمر ضیاالحق کو قومی پرچموں میں لپیٹ کر عزت و تکریم سے دفن کیا جاتا رہے۔ نواز شریف کو ذاتی کاروبار کی دہائیوں پرانی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر برطرف کرنے کی سازش کی جاتی ہو لیکن مشرف، ایڈمرل منصور اور عدنان کیانی جیسے افراد کو پرتعیش زندگی گزارنے کیلیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہو۔ اگر پانامہ لیکس کے الزام میں ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی سازش کی جا سکتی ہے تو ہر دور آمریت میں آمروں کے ناجائز اقدامات کو قانونی تحفظ دینے والی عدلیہ اور بیوروکریسی کے خلاف آئین کے تحت کیوں مقدمات نہیں بنائے جا سکتے۔ سانحہ کارگل اور سانحہ ایبٹ آباد کے مجرموں کو کیوں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پیش پیش جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا سے بازپرس کیوں نہیں کی جا سکتی۔ نواز شریف کے پاس اس وقت کھونے کو کچھ زیادہ نہیں بچا جبکہ پس پشت قوتوں اور اس کی کٹھ پتلیوں کے پاس اس وقت ہارنے کو سب کچھ ہے۔ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد اردگان ترکی کی سیاسی تاریخ کا مضبوط ترین رہنما بن کر ابھرا اور ناکام بغاوت کرنے والوں کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ نواز شریف اور پس پشت طاقتوں کی طاقت کی اس جنگ کا انجام شاید تاریخ بہتر طور پر دینے پائے گی۔ لیکن احتساب اور کرپشن کے چورن کو بارہا عوام کو بیچ کر خود مقدس گائے کے رتبے پر فائز ہو کر ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی قوتوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ احتساب کو بنیاد بنیاد بنا کر سیاسی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے نادیدہ ہاتھ جب تک اداروں اور نظام کو مضبوط نہیں ہونےدیں گے تب تک اقتدار کے ایوانوں میں عوامی مسائل کے حل کے بجائے توجہ طاقت کی جنگکو جیتنے میں مرکوز رہے گی۔