نواز شریف پر جوتا پھینکا جانا اور خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکے جانے کا واقعہ یہ یاد دہانی ہے کہ اس ملک میں سب سے آسان ٹارگٹ عوامی نمائندے ہیں۔ کسی کا بھی جب دل چاہے اٹھ کر سیاستدانوں پر جوتے بھی پھینک سکتا ہے اور سیاہی بھی مل سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وطن عزیز کے عارض پر اپنی پالیسیوں سے سیاہی ملنے والوں کو کوئی مورد الزام بھی ٹھہرانے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ ان قوتوں کی سمت انگلی اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے طرم خانوں کی ٹانگیں کپکپکانے لگتی ہیں۔ نواز شریف پر جوتا پھینیکنے والے اور آصف پر سیاہی پھینکنے والے شخص، دونوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فعل اس لئیے سرانجام دیا کہ حکمران جماعت نے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوشش کی تھی۔ یعنی ختم نبوت کے مسئلے کے نام پر جو مذہبی کارڈ پس پشت قوتوں اور عمران خان نے مل کر کھیلا تھا اس کے اثرات اور ثمرات اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
عوام کی اکثریت جس میں پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں من و عن ایسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کے اس بیانئے پر ایمان لا چکے ہیں کہ مسلم لیگ نون نے توہین رسالت کے قانون کو چھیڑنے کی کوشش کی تھی۔ مولوی خادم حسین جیسے مہرے اور دیگر فتوی فروش اور عقائد کے سوداگر چونکہ وطن عزیز میں باآسانی دستیاب ہیں اس لئیے مذہب کو بنیاد بنا کر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہرگز بھی مشکل کام نہیں ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ نواز شریف کے بیانئیے کی مقبولیت کے بعد جب اس کو عدالتوں اور عمران خان کے ذریعے زیر نہیں کیا جا سکا تو اب مولوی خادم حسین جیسے مہروں کے ہاتھوں مذہبی کارڈ کھیل کر پھر سے لوگوں کو مشتعل کروایا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف انتہائی خطرناک عمل ہے بلکہ وطن عزیز کو خانہ جنگی کی جانب بھی دھکیل سکتا ہے۔ اگر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس قسم کے مزید واقعات رونما کروا کر مسلم لیگ نواز کی انتخابی مہم پر اثر انداز ہو کر اسے گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی مانند کھل کر انتخابی مہم میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا تو یہ ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف اور اس کی جماعت پییلز پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی کے برعکس مذہبی حلقوں میں اچھا خاصہ رسوخ رکھتی ہے اور اگر نواز شریف کی جماعت نے اس مذہبی کارڈ کا جواب مذہبی کارڈ کھیل کر دیا تو وطن عزیز کو خانہ جنگی سے کوئی بھی طاقت نہیں بچا سکے گی۔ فیض آباد دھرنے سے شروع ہونے والے اس سیاہ ترین اور مکروہ کھیل کو رچانے والی قوتیں شاید جانتے بوجھتے یہ حقیقت نظر انداز کر رہی ہیں کہ شدت پسندی کا شکار معاشرہ جو اس وقت نفرتوں اور تعصب کا شکار ہو کر خود اپنے آپ کو تباہ و برباد کرنے پر تلا بیٹھا ہےاس کیلئے مذہب کا کھیلا گیا یہ کارڈ تباہ کن ثابت ہو گا۔ جس نوجوان نے نواز شریف پر جوتا پھینکا یا جس نے خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی ان کو قید کرنے یا ان کی دھلائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسے بے بہا افراد وطن عزیز میں موجود ہیں جو خود سے کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
یہ کڑوڑہا افراد وہ چلتے پھرتے بم ہیں جن کو کبھی طالبان کبھی کالعدم جماعتیں اور کبھی ایسٹیبلیشمنٹ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہی آئے ہیں۔ جب تک اس وطن میں بسنے والے باشندوں کے اذہان کو مفلوج اور برین واش کرنے والی قوتوں کا خاتمہ نہیں ہو گا تب تک کبھی مذہب اور کبھی سیاسی و ذاتی عناد کو بنیاد بنا کر سیاہی پھینکنے، جوتا پھینکنے اور کبھی دوسروں کو قتل کرنے کا یہ گھناونا عمل جاری ساری رہے گا۔ نواز شریف محض ایک سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کے تین دفعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم ہیں جبکہ خواجہ آصف ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہی نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ہیں، یہ جوتا اور سیاہی دراصل پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور حالیہ وزیر خارجہ کے منہ پر پھینکی کی گئی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا خبر دیتے وقت یہ نہیں بتا رہا کہ جوتا مسلم لیگ نون کے قائد یا سیاہی رہنما خواجہ آصف پر پھینکی گئی بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم پر جوتا پھینکا گیا اور وزیر خارجہ کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی۔ خیر جو قوتیں وطن عزیز کے آئین و قانون کو جوتوں تلے روند سکتی ہیں اور ان پرکالک مل سکتی ہیں جو وطن عزیز کے روشن مستقبل کو طالبان اور لشکر طیبہ جیسی جماعتیں پال کر سیاہ کر سکتی ہیں ان سے اس کے علاوہ اور امید یا توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے ؟ یہ اچھا ہے کہ پردے کے پیچھے سے ڈوریں ہلائی جائیں، سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کروایا جائے پھر مذہب کا کارڈ کھیلا جائےاور اپنے مخالف بیانئیے کے علبردار کو جوتے مروائے جائیں یا ملک کے وزیر خارجہ کے منہ پر سیاہی پھنکوائی جائے۔ لیکن جن ہاتھوں میں ملک کی اصل باگ دوڑ ہے اور جو پس پشت قوتیں دراصل اس ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہیں ان کی شان میں ہمہ وقت قصیدے پڑھے جائیں ان کی ناکام خارجہ و داخلی پالیسیوں پر تنقید کرنا بھی گناہ کبیرہ قرار دیا جائے۔ مذہب فروش مولویوں اور عقائد کے سوداگروں پر تنقید کو کفر قرار دیا جائے۔ کفر اور غداری کی اسناد پیدا کرنے والی صنعتوں کے اصل مالکوں کو کچھ نہ کہا جائے لیکن سیاست دانوں اور ان کو منتخب کرنے والے ووٹرز کو کمی کمین اور ہاری تصور کرتے ہوئے ان کی ہر ممکن طریقے سے تذلیل کرنے میں کوئی کمی نہ روا رکھی جائے۔
نفرتوں کی ایک فصل ہم نے 80 کی دہائی میں تیار کی تھی اور اس کا خمیازہ مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کی صورت میں آج تک بھگت رہے ہیں۔ اب ایک نسل ایسی تیار کر لی گئی ہے جو مذہب اور سیاست میں اختلاف رائے کو کفر اور غداری سے عبارت کرتی ہے اور جو آنکھیں بند کر کے پس پشت، قوتوں اور ان کی بیساکھیوں کے مرہون منت سیاستدانوں کے کہے ہوئے کو ہی حرف آخر تسلیم کرتے ہوئے مخالفین کی تضحیک اور توہین کرنے اور جگتیں لگانے کو زندگی کا کل حاصل سمجھتی ہے۔ یقینا آج کی جدید دنیا میں ایسی کند ذہن اور سوچ سے عاری نسل تیار کرنے کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ نواز شریف پر جوتا پھینیکنے اور خواجہ آصف یا کسی بھی دوسرے مخالف کےچہرے پر سیاہی پھینکنے سے اگر پس پشت قوتوں کی پھیلائی گئی سیاہی دھل سکتی ہے تو پھر نواز شریف اور خواجہ اصف سمیت تمام ووٹرز، عوام، صحافیوں اور دانشوروں ہر جوتے برسا کر یا ان کے منہ پر یہ سیاہی پھینک کر یہ کوشش کر کے دیکھ لینی چائیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ چہروں پر پھنکوائی گئی سیاہی تو دھل جاتی ہے لیکن تاریخ کے ادوار میں اپنے اعمال سے پھیلائی گئی سیاہیوں اور کالک کو دھویا نہیں جا سکتا ہے۔ کسی دوسرے کے چہرے کو سیاہ کرنے سے اپنا کالک زدہ چہرہ روشن نہیں ہوا کرتا ہے۔
وہ سیاسی مخالفین اور ان کے ہمدرد جو نواز شریف پر جوتا پھینکنے یا خواجہ آصف کے ساتھ ہونے والے اس مذموم عمل پر طنز و تنقید کے نشتر برساتے نواز شریف اور خواجہ آصف کو کبھی توہین رسالت کی مرتکب حکومت کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور کبھی انہیں "مودی کا یار " قرار دے رہے ہیں، دراصل اس آگ کو مزید ہوا دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں خود پس پشت قوتوں کی بیساکھیوں کے سہارے چلنے والے عمران خان اور ان کی جماعت بھی آ سکتی ہے۔ کل کو عمران خان یا کسی اور رہنما کے ساتھ یہ واقعہ پیش آئے گا تو نقصان سیاست کو ہی ہو گا، اور سبکی بھی سیاسی رہنماؤں اور سیاسی نظام کی ہو گی۔ مولویوں اور پس پشت قوتوں کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا کیونکہ وہ توہین مذہب اور غداری کی ڈھالوں تلے چھپے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف اور خواجہ آصف کے ساتھ پیش آنے والے یہ واقعات جن نادیدہ قوتوں اور دیدہ سیاسی قوتوں کی ذوق سماعت اور شوق بینائی کی تسکین کا باعث بن رہے ہیں ان کو یہ نہیں بھولنا چائیے کہ فاشزم ایک نہ ایک دن خود اپنا شکار آپ بن جایا کرتا ہے۔ اس فاشزم اور ذاتی انا کے کھیل میں عدم برداشت اور شدت پسندی پھیلا کر خوش ہونا دراصل خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کو آگ لگا کر خوش ہونے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز کے آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کاعمل جوتوں سیاہیوں اور تاریکیوں سے نہیں مینڈیٹ کے احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے ایک پر امن بیانئے اور معاشرے سے مشروط ہے۔ ان دونوں واقعات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے مذہب اور نفرت کو بنیاد بنا کر عوام کو مزید شدت پسندی پر اکسایا ہے اور اب جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کی یہ جنگ اعصاب شکن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بیانیوں کی یہ جنگ جوتوں اور سیایہوں سے تو نہ جیتی جائے گی لیکن عدم برداشت اور مذہب کا کھیلا گیا یہ کارڈ وطن عزیز کو اس سمت لے جا سکتا ہے جہاں فسادات اور ہنگامے کسی بھی وقت پھوٹ سکتے ہیں۔