سیاستدانوں پر تنقید کرنا وطن عزیز میں لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ بقول مشتاق یوسفی صاحب موسم کی شکایت اور حکومت پر تنقید ہمارے قومی مشغلے ہیں۔ ملک میں ہونے والی ہر برائی کا زمہ دار سیاستدانوں کو قرار دینا گویا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وطن عزیز میں بسنے والا ہر فرد خود کو تجزیہ کار سمجھتے ہوئے تمام تر سماجی معاشرتی معاشی بحرانوں کا زمہ دار سیاستدانوں کو قرار دیتا دکھائی دیتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ہم دنیا کا ایک منفرد ملک ہیں جہاں انٹرٹینمینٹ چینلز کے بجائے نیوز چینلز کی ریٹنگ زیادہ ہے۔ اگر آپ نفسیات کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ پتا چلے گا کہ جس معاشرے میں تفریح کے مواقع کم ہوں اور تنگ نظری کی چھتری میں نسلیں پروان چڑھیں وہاں طعنے دینا اور تنقید برائے تنقید کرنا ایک معمولی سی بات ہو جاتا ہے۔ اس نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکیٹنگ کے گرو انتہائی مہارت سے میڈیا اور ادب کے زریعے ایک خوف اور سنسنی کی مصنوعی فضا قائم رکھتے ہیں اور یوں منافع کی اس دوڑ میں آنے والی نسلوں کا کل بھی جھونک دیا جاتا ہے۔
اگر ہم اپنے وطن کی تاریخ پر ایک نگاہ دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ 1960 کے آخری عشرے تک ہم ایک ترقی کرتے اور طعنوں کے بجائے عملی کام کرنے والی قوم تھے۔ گو اس زمانے میں بھی دنیائے ادب میں دوسرے اور تیسرے درجے کے لکھاری عام عوام تک اپنی تحریروں اور کتابوں کی بدولت نفرت اور نرگسیت کا زہر اتارنے میں کامیاب ہو چکے تھے لیکن مجموعی طور پر معاشرہ ایک متوازن سوچ کا حامل تھا۔ 1970 کے بعد سقوط ڈھاکہ اور پھر ڈالر سپانسرڈ نام نہاد افغان جہاد نے ادب سے لیکر صحافت اور مزہب سے لیکر سیاست تک سب کچھ بدل ڈالا۔ منٹو عصمت چغتائی امرتا پریتم ادب سے نکال دیئے گئے اقبال جیسے دانشور نیشنلایزڈ کر دیئے گئے۔ مفربی مفکرین کو کافر قرار دیکر ان کا مطالعہ ہی سرے سے ناپید کروا دیا گیا اور عوام کی شناسائی سرکاری عہدوں پر فائز رہ کر تمام عمر مراعات لیتے بیوروکریٹس اور چند وظیفہ خوار لکھاریوں سے کروا دی گئی۔ نتیجتا اجتماعی طور پر معاشرہ اختلاف رائے کو برداشت کر دینے سے عاری ہوتا چلا گیا اور حقیقت سے فرار کے طور پر کبھی فرضی تاریخی ناول اور کبھی جھوٹی آپ بیتیوں کا عادی ہوتا چلا گیا۔
صحافت میں بھی ایسا ہی ہوا اور ایک ان دیکھے قومی مفاد ایک فرضی دشمن اور سیاستدانوں کی بشری کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والی کلاس نے جنم لیا۔ ڈالر سپانسر جہاد نے مزہب کا چورن بیچنا انتہائی آسان کر دیا اور یوں ایک اصلاف پرستی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو گیا جو کہ آج تک قائم و دائم ہے۔ یہ مختصر سا جائزہ اس لیئے پیش کرنا ضروری تھا کیونکہ سوچ بنانے میں یہ عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب آپ بچوں کے آئیڈیل جنگی ہیروز یا جاسوسی ہیروز بناتے ہیں یا تصوف کے نام پر انہیں سب کچھ تیاگ کر محض اگلی دنیا کی فکر کا کہتے ہیں جبکہ خود اپنے لیئے تمام تر عیش و عشرت اسی زندگی میں ڈھونڈتے ہیں تو پھر ـمعاشرے میں ایڈیسن یا آئن سٹائن جیسے دماغ یا لوگ نہیں پیدا ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ پھر دور جدید کے عصری تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے بجائے محض طنز و تنقید کے نشتر برسانے والے بنجر دماغ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
زرا غور کیجئے کہ ہم تنقید کے کس قدر عادی ہو چکے ہیں۔ ہمہ وقت دوسری قوموں سے اپنا تقابلہ کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم عملی میدان میں خود کوئی کام نہیں کرنا پسند کرتے۔ افسانوی باتوں تحریروں سے متاثر ہو کر ایک شہزادی جیسے خوابوں کے شہزادے کا انتظار کرتی ہے ہم بھی ایک مسیحا کا انتظار کرتے رہتے ہیں جو آتے ہی پلک جھپکتے ہمارے تمام مسائل فورا حل کر دے اور ہمیں ہاتھ تک نہ ہلانا پڑے۔ بے بہا آبادی وسائل کی عدم دستیابی اپنے اپنے حصے کے کام سے کام چوری کرپشن دھونس دھاندلی کرنے والے معاشرے میں فرشتے بھی اگر آ کر وطن عزیز کا نظام سنبھالیں تو کچھ بھی نہ کر پائیں۔ رہی سہی کسر ناقدین اور جعلی تجزیہ کار افواہوں اور جھوٹی خبروں سے پوری کر دیتے ہیں۔ یوں کاہلی کا شکار معاشرہ سیاستدانواں کو مزید برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد پھر خواب خرگوش کی نیند سو جاتا ہے۔ سیاستدان ہم لوگوں میں سے ہی ہمارے معاشرے میں سے ہی نکل کر آتے ہیں اور جن برائیوں کا شکار عموما ہم انہیں ٹھہراتے ہیں وہ ہماری اجتماعی برائیاں ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقیات کی تمام تر حدود پار کر جاتے ہیں لیکن ویسے ہمہ وقت اخلاقی قدروں کے زوال کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی بنا تحقیق کی من گھڑت خبروں کو سچ مان کر خوب دہائیاں دینے کے بعد پھر سے اپنے اپنے حصے کی بے ایمانی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ چائے خانوں سے لیکر دکانوں اور دفاتر میں بیٹھے تمام افراد خود کو یا تو وزیر اعظم سمجھتے ہیں یا پھر تجزیہ کار اور ہر روز حکومتوں کے جانے کی تاریخیں دیتے نہیں تھکتے۔ ایسے ایسے لوگ جنہیں شاید ایک ٹریفک پولیس کا سنتری روک لے تو گھبرا کر اپنے محلے کی سیاسی شخصیت کو فون کرتے ہیں وہ بھی سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے نعرے مارتے ہیں یا لکھتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
کسی زمانے میں چائے خانوں میں پارکوں میں بڑے بڑے علمی مباحث ہوا کرتے تھے دور حاضر کی نئی نئی تحقیقات مباحث کا عنوان ہوتی تھیں۔ انٹرنیٹ اور میڈیا ریولوشن کے بعد دل خوش فہم کو امیدیں تھیں کہ اب کیونکہ دنیا ہاتھوں کی انگلیوں میں سمو گئی ہے تو یقینا یہ فکری جمود یہ کاہلی اور ہرزہ سرائی کا زور ٹوٹے گا لیکن افسوس کہ ان تمام چیزوں کا بھی ہم نے استعمال محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کو ہی کیا۔ تنقید برائے تنقید اگر مسائل کا حل ہوتی تو دنیا ریسرچ فنون لطیفہ سائینس اور گورننس کے بہتر ماڈل پر بیش بہا پیسہ نہ خرچ کرتی۔ تنقید کرنا یقینا سب کا حق ہے لیکن ہر وقت سیاستدانوں کو ہر برائی کا مرتکب ٹھہرا کر خود کچھ نہ کرنا بھی کوئی قابل تعریف فعل نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی حاصل ہے۔ سیاست دانوں کا اخلاقی اور گورننس معیار بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم پہلے خود انفرادی سطح پر اخلاقیات کا معیار بہتر بنائیں اور کرپشن کی کسی بھی قسم کو قبول کرنے سے انکار کریں۔ ترقی نہ ہونے کی زمہ داری سیاستدانوں پر ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ملکی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ آئیے محض تنقید اور ہرزہ سرائی کو چھوڑ کر عمل کے زریعے اپنے معاشرے اور وطن کو بہتری کی طرف لے کر جائیں۔