چھوڑیئے جناب یہ فرنگی ملکوں کی پیروی کرنا۔ مدر ڈے، فادر ڈے اور ویلنٹائن ڈے منا کر ہم کیوں گناہگار ہوں۔ ویسے بھی ہماری قوم اب تک ان دنوں کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہو چکی ہے۔ حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور دن منا لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا .اس سے پہلے کہ حکومت وقت یا اپوزیشن اس کا تمغہ بھی اپنے سینے پر سجا لیں، ہم نے یہ سوچا کیوں نہ ان سے سبقت لے لی جائے سو پیش خدمت ہے، ہیپی دہشت گردی ڈے ۔
جس تناسب میں دہشت گردی ہماری زندگیوں کا جزو لازم بن چکی ہے یہ عین فرض ہے کہ اس دن کو اس کی حرمت کے مطابق منا کر ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے جو لوگوں کی جان ومال کی تباہی کا اہم کام سر انجام دیتے ہیں۔ یہ دن صرف ان لوگوں کے نام سے منسوب نہ ہوگا جو جان لیتے ہیں بلکہ اس میں ان روشن مثالوں کو بھی شامل کرنا مطلوب ہے جو اپنی دہشت تیزاب کے ساتھ لوگوں کے چہروں پر رقم کرتے ہیں۔ کمزور عورت کو ریپ کرتے ہیں۔ بچیوں کو ونی کرتے ہیں۔ ٹی وی اسکرینوں پر نفرت بیچتے ہیں۔ جب کچھ لوگ اتنی تندہی سے اپنا کام کرنے میں جتے ہیں تو ان کے نام سے ایک دن منانے میں حرج ہی کیا ہے۔
ہیپی دہشت گردی ڈے کو منانے کے کچھ اصول و ضوابط بتاتے چلیں ۔ باقی دنوں اور تہواروں کے رسوم و رواج لوگوں پر منحصر ہیں۔ مگر اس دن اصولوں اور ضابطوں کو لازم سمجھا جائے گا۔ سب سے پہلا اصول ہی یہ ہو گا کہ اس دن کو منانا سب پر فرض ہو گا۔ پهر خواتین کی عزت اور احترام کے پاسبان ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے ذکر بھی ان کا ہی کیا جائے تو عین مناسب رہے گا۔ کوئی بھی تہوار ہو ہماری خواتین کا سارا زور اپنے لباس پر ہوتا ہے۔ تو اس دن کے حساب سے خواتین کا فارمل ڈریس شٹیل کاک برقعہ ہو گا۔ بناو سنگھار سے مکمل طور پر پرہیز کروایا جائے گا۔ لہذا مرد حضرات اپنی اور خاص طور پر دوسروں کی بیگمات کو دیکهنےکی کوثشش نہ کریں ورنہ نتائج کے ذمہ دار خود ہوں گے اپنے باڈی گارڈ یعنی اپنے محرم کے ساتھ باحالت مجبوری نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ غیر محرم کے ساتھ نکلنے پر سرعام کوڑے مار کر مجمع میں موجود مرد حضرات کو مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
سرخ رنگ کا استمعال جا بجا کیا جائے گا مگر اسے ویلنٹائن والا سرخ رنگ نہ سمجھا جائے ۔ فضا کو اصل خون کی لالی سے رنگا جائے گا اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ اس رنگ سے کھیلتے ہوئے کسی اعتزاز حسن جیسے جانباز سے سامنا نہ ہو پائے۔ بےگناہوں کو مارنے والے کو جنت میں حوروں کا گفٹ واوچر بالکل مفت
پھولوں کے استعمال کا خصوصی موقعہ مرنے والوں کے لواحقین کے لیے ہو گا۔ وہ مرنے والے جن میں سے اکثر کے تابوت خالی ہوں گے یا پهر مختلف جسموں کے اعضا جو تسلی کے لیے رکھ دیے جائیں گے، تاکہ میت کو کندھا دینے والوں کو تسلی رہے کہ تابوت خالی نہیں۔ اس خوش گوار دن میں صحت کا بھی خاص خیال رکھا جائے گا۔ دہشت گردوں کا من پسند کھیل فٹبال ہونے کے سبب اس کا بھی خاص انتظام ہو گا جس میں جدت پسندی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس میچ میں انسانی سر ٹھوکروں میں ہوں گے۔ وہ سر جن پر ہمیشہ باپ کی دعاؤں کا سایہ رہا ہو گا، ماں کے محبت بهرے بوسے دیئے جاتے ہوں گے یا پهر وہ سر ہوں گے جو کٹ تو سکتے تھے مگر جهک نہیں سکتے۔ اس سفاکانہ کھیل کا مقصد لوگوں کو یقین دلوانا ہو گا کہ اگر انہوں نے دہشت گردوں کی تجویز کردہ شریعت پر عمل نہ کیا تو کل یہ سر ان کا بھی ہو سکتا ہے۔
عام طور پر تہواروں یا پهر خوشی کے موقع میں مختلف کپمنیاں نئی چیزیں متعارف کرواتی ہیں اور چیزوں کی قیمت میں کمی کا اعلان کرتی ہیں اس لیے اس دن کی مناسبت سے شدت پسند خودکش جیکٹوں کی رعایتی نرخوں پر فراہمی کی خوشخبری دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ انسانی جان کو اس قدر سستا کر دیا جائے گا کہ ایک لاش کے ساتھ دوسری بلکہ تیسری اور چوتھی مفت. رات کو چراغاں بھی ہونا ضروری ہو گا۔ دنیا بهر میں خوشی کے موقع پر آتشبازی ہوتی ہے تو اسی مناسبت سے ہمارے عزیز دہشت گرد چراغاں کے لیے بارود سے بهرا ٹرک کسی مصروف ترین عمارت سے ٹکرا سکتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ روشنی ہوسکے۔ اس انوکھی آتشبازی میں ایندهن کے طور پر انسانوں کا استمعال تو اظہر من الشمس ہے ہی۔ جتنی زیادہ زندگیوں کے چراغ گل ہوں گے چراغاں بھی اس ہی حساب سے ہو گا۔
اس دن کی خاص تقریب وہ عشائیہ ہو گا جو جملہ کالعدم تنظیموں کے قائدین کے اعزاز میں دیا جائے گا۔ عشائیہ میں لذیذ کھانوں کے بعد تحائف کا سلسلہ شروع ہوگا۔ دہشت گرد قوم کو سر بریدہ لاشوں کا تحفہ دیں گے اور بےحس لوگ مذمت کا۔
کریڈٹ: humsub.com.pk