کنول پھولوں کی سیج پر پیدا ہوئی۔ پیدائش بھی ایسے گھر جہاں بیٹی کے آتے ہی ڈھول بجتے ہیں۔ بیٹی کے نزول کے بعد خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جہاں بیٹی کو خوش قسمتی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی ادب آداب سکھائے جاتے ہیں۔ ان کی تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی سے ہر ممکن پرہیز کیا جاتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی کان چھیدنے کی رسم ادا کر دی جاتی ہے۔ ناک میں کیل ڈالنے کے لیے کچھ برسوں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ رنگ برنگی چوڑیوں سے کھنکتی نرم و نازک کلائیاں سجی رہتی ہیں۔ یہاں ننھے قدموں کے ساتھ گھنگروں کی آواز لازم قرار دی جاتی ہے۔
اس ماحول میں خاص اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ کس انداز سے کسی کے دل کو موہ لینا ہے۔ کسی طرح بدلتے لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کے آگے اپنے آپ کو کس ادا سے پیش کرنا ہے۔ بدن کو نوچنے والوں کے سامنے اپنے دفاع کے لیے ایک انگلی کی جنبش سے بھی گریز کرنا ہے۔ چاہے کوئی ان پر مر مٹنے کا وعدہ کیونکر نہ کر لے انہوں نے پتھر کا ہو کر جینا ہے۔ انہوں نے اپنے مچلتے ارمانوں کا خون کرتے ہوئے کھلکھلانے کا سبق بھی ازبر کرنا ہوتا ہے۔
انہیں جذبات کو دل کی گہری کھائی میں دفن کر کے فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ نشیلے نینوں سے جام کے گھونٹ کس ادا سے پلانے ہیں۔ زہر پیتے ہوئے ہونٹوں پر تبسم کس طرح سجانا ہے۔ یہ ان کے درس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ گندی غلیظ سوچ رکھنے والوں سے کس طور لپٹ کر گہری سانسوں کا ڈرامہ رچا کر پل پل مرنا ہے۔ ہر بار مرنے کے بعد پھر جینا بھی ہے۔ ایسے کٹھن وقت کے لیے بھی انہیں تیار کیا جاتا ہے جہاں ان کو جینے اور مرنے کے بعد چند لمحوں کا وقفہ دیا جاتا ہے۔
زبردستی شراب کے جام اگر کوئی من چلا ان کے ہونٹوں پر لگا بیٹھے تو ان پر پینا واجب قرار پاتا ہے۔ نشے میں دھت اگر کوئی گاہک ان کے ساتھی کی جان بھی لے لے تو زبان کی جنبش سے بھی گریز کرنا ہے۔ یہ ہی خاموشی ان کی زندگی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ لذت جسم کی تسکین کی خاطر آنے والوں کی حکم عدولی کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ فرار اور حکم عدولی جیسی سرکشی پر سخت سے سخت سزا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسی سرکشی ان کے لیے عقوبت خانے کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اور اکثر یہ عقوبت خانے بغاوت کا سر کچلنے کے بعد قبرستان میں بدل دیے جاتے ہیں۔ جسمانی تشدد پر شکایت گناہ قرار پاتی ہے۔ انہیں دھکتے انگاروں پر بھی لوٹنا پڑتا ہے اور اف بھی نہ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔
تربیت کے تمام مراحل طے کرنے کے بعد وہ دن بھی آن پہنچتا جب ان کی سج دھچ میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ نتھ اترائی کی گھڑی آں پہنچتی ہے۔ بچپن سے پرورش پر کئے جانے والے جتن کی منہ بولی قیمت لگانے کی گھڑی۔ بارہ تیرہ برس کی بچیوں کی بولی لگانے کا وقت۔ گاہگ ترو تازہ کلیوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔ بچیوں کے بناؤ سنگھار کے بعد ہاتھوں میں گجرے اور جوڑے میں گلاب لگا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو کالا ٹیکا لگا کر بازار حسن میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ جہاں گاہک کو ٹھوک بجا کر اپنا مال خریدنے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔ ہر گاہگ اپنی اپنی چاہ کا متلاشی ہوتا ہے۔ کسی کو گورا رنگ بھاتا ہے، کوئی بھرے ہوئے جسم پر مر مٹتا ہے۔ کوئی تیکھے نین نقش کا دیوانہ، کوئی اپنی طاقت کو آزمانے کے لیے جاندار مال انتخاب کرتا ہے۔ اوپر سے نیچے تک جسم کی جانچ پڑتال کے بعد رقم دلال کے حوالے کر کے مال کی وصولی کی جاتی ہے۔
اس کے بعد گاہک اپنے خریدے ہوئے مال کو تھامے کمروں کی جانب جاتے ہیں۔ بستر پر چاندنی جیسی سفید چادر بجھی ہوتی ہے۔ سفید چادر جب تک سرخ دھبوں سے نہ سج جائے خریداروں کا جشن جاری رہتا ہے۔ درو دیوار بھی بچیوں کی اذیت بھری چیخوں کے عادی ہوتے ہیں۔ گاہک اپنی عیاشی کے بعد کمر بند کستے ہوئے پاکباز بیویوں کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ کھلے دروازں کے اندر جب جھانکا جاتا ہے تو ہر کمرے میں بیتی ہوئی داستان کا انجام ایک ہی ہوتا ہے۔ مگر بچیوں پر بیتے ہوئے لمحات مختلف انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔
کسی بچی کے نوچے ہوئے بال، کسی کے جسم پر نیل کے نشانات، کسی کے دانتوں سے کاٹنے کے زخم، کسی کی پیٹھ پر گہرے ناخنوں کے زخم۔ کسی کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے اور کوئی سکتے کی حالت میں آنکھیں پھاڑے بیٹھی رہتی ہے۔ یہ ان کی ذلت بھری زندگی کا وحشیانہ آغاز ہوتا ہے اس کے بعد وہ اس کو اپنی زندگی کی حقیقت سمجھ کرقبول کرتی چلی جاتی ہیں۔ جیسے ہی جوانی اپنے آخری ایام گزار لیتی ہے ویسے ہی ان کی مشکلات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ عمر کے ڈھلتے ہی ان کی ذمہ داریاں بدل دی جاتی ہیں۔ جس کھاٹ سے انہوں نے خود کڑوے گھونٹ پی رکھے ہوتے ہیں۔ وہاں پر آنے والے نئے ریوڑ کی تربیت کا بیڑا اٹھاتی ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ طوائف اپنا کام بہت خوش دلی سے کرتی ہے کیا آپ کا اب بھی ایسا ہی ماننا ہے۔ خوش دلی کے لیے دل چاہیے۔ دل دھڑکتا نہ ہو تو کیا اس کو دل کہہ سکتے ہیں۔ دل دھڑکتا ہے انجانی چاپ پر، سچی خوشی پر، محبت بھرے جملوں پر، بادل کے گرجنے پر، ساون کے برسنے پر، پیا کی آمد پر، بابل کی دہلیز پر، ماں کے دلار میں، بھائی کے لاڈ میں۔ یہ جن کا تذکرہ ہے، انہیں کسبی کہہ لیجیے، جسم فروش کہہ لیجیے، طوائف کہہ لیجیے۔ ان کی زندگی میں دکھ ہیں۔ ہوسناک نظریں ہیں۔ بدن کے سودے ہیں۔ مردہ سیجیں ہیں۔ پر وہ لمحے کہاں ہیں جو دل دھڑکاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کبھی کسی طوائف کے سینے پر کان رکھ کر کوئی سنے تو صرف خاموشی ملے گی۔ ریت ریت ہوئے چپ صحرا کی خاموشی۔ مان لیجیے۔ طب مانے یا نہ مانے۔ طوائف کا دل دھڑکتا نہیں ہو گا۔
بہ شکریہ: ہم سب