رات کا پچھلا پہر تھا۔ نگاہ آسماں کی جانب اٹھی تو گہرے نیلے امبر پر نصف چاند نے میرے وجود پر سکتہ طاری کر دیا۔ ایک نامکمل شئے کی دلکشی اتنی پر اثر کیسے ہو سکتی ہے۔ پہلی نظر میں کسی کی چاہت میں گرفتار ہونا شاید اس ہی کا نام ہے۔ پل بھر میں مجھے ایسی اسیری کا احساس کبھی نہ ہوا۔ اس کے حسن بےمثال سے کب میں محوِ گفتگو ہوئی، کچھ خبر نہیں۔
کچھ لمحے اس کی تعریف کے گن گائے۔ وجہ الفت کو دل کھول کر بیان کیا۔ کچھ اپنی سنائی کچھ اس کی سنی۔ پرت در پرت شناسائی کے پردے چاک ہوئے۔ چند لمحوں میں دوستی کی معراج کو چھو لیا۔ جب دوستی ہو جائے تو پھر کہنے سننے میں ہچکچاہٹ کیسی؟ تکلف کی دیوار گری تو ایک سوال میں بھی پوچھ بیٹھی۔ کہ تمہیں اپنے ادھورے پن پر کچھ ملال نہیں؟ تمہیں دیکھ کر ایسا کیوں لگتا ہے جیسے تم نے کچھ کھویا ہی نہیں۔ تمہاری اس بے رخی، بے مروتی، بے نیازی، بے فکری پر سوال تو اٹھتا ہے۔ ادھورے پن میں بھی حسن بے پایاں کے مالک کیسے بن بیٹھے ہو۔
اپنے انداز جدا گانہ میں ماہتاب حسن نے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا کہ “میں تم کو آدھا دکھتا ہوں” میں نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔ تو کہنے لگا “دور کہیں کسی اور کو بھی میں ایسا ہی دکھتا ہوں گا” میں پھر بولی ہاں ہاں ایسا ہی ہوگا۔ جواب آیا، تو پھر ملال کیسا، آدھا آدھا پورا ہوتا ہے نا؟ اس مکمل جواب کے بعد میں چپ رہی، ہنس دی اور چل دی۔
بہ شکریہ: ہم سب