اچھی آپا اور ننھی کا گھر کہلانے والی جھونپڑیاں ساتھ ساتھ تھیں۔ اور ان میں بہت سی چیزیں مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ غربت کا رنگ بهی ایک جیسا تها۔ چھوٹی عید پر نئے کپڑے،جوتے اور میٹھا پکانے کا رواج ان کے گھروں میں نہ تها عیدی کے نام پرننهی کو پانچ سال سے تسلی دی جاتی۔ گوشت عید قربان پر ہی نصیب ہوتا پر محبت کی کمی نہ تھی۔ دونوں کی جان گویا ایک دوسرے میں تھی۔
عید پر ننھی کی ماں اس جوڑے کا انتخاب کرتی جس پر ذرا کم پیوند ہوتے۔ چپل کو گیلی ٹاکی سے رگڑ رگڑ کر چمکانے کی ناکام کوشش کی جاتی۔ چپل بهی وه جو ننهی کے پاس کم اور موچی کے پاس زیادہ رہتی۔ بالوں کے لیے نئی چوٹی خریدنے کے بجائے راستے میں پڑی ٹاکیوں کو گره باندھ کر ننهی کے بال گوندھ دیئے جاتے۔
ہونٹوں پرلالی کی خواہش میں ننهی دنداسہ دانتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں پر بهی مل لیتی۔ مہندی کے پتوں کو دیرتک اپنی مٹھی میں دبا کر رکھتی تاکہ ہتهیلی کی حرارت سے مہندی کا رنگ ہاتھوں پر چڑھ جائے
رچنے کے سبھاؤ میں کانوں میں جھاڑیوں کے نئے تنکے ڈالے جاتے۔ چوڑیوں کی دیوانی ننهی اپنے اس ارمان کو پورا کرنے کےلیے اپنی اماں کے کپڑوں کا صندوقچہ کهولتی اور اماں کی شادی کے کڑے پہن لیتی۔ کڑے بهی وه جو کسی زمانے میں سنہری ہوا کرتے تهے مگر اب ان کا رنگ کالا ہو چکا تها اس کے باوجود اس کو وه کڑے بہت عزیز تهے۔ کڑے پہنے کے بعد ننهی اس خوف سے اپنا بازو سیدھا نہ کرتی کہ کہیں اس کی ننهی سی کلائی سے اماں کے کڑے گم نہ ہوجائیں۔ سرمہ وه واحد فضول خرچی ہوتی جو عید پر کی جاتی۔ اپنی بھرپور تیاری کے بعد ننهی چاچا دین محمد کی سائیکل کے شیشے میں اپنے آپ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی۔
اس کی اچهی آپا کے گهر میں بهی مفلسی کا راج تها غربت اور بھوک کے ڈیرے تهے اور آپا نے سجنے سنورنے کی ناکام کوشش برسوں پہلے ترک کر دی تھی۔ دونوں کے دکھ اور تکلیفیں ایک جیسی تھیں
اکثر اوقات ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی۔ جس دن کهانے کے لیے پانی میں ڈوبی سوکهی روٹی کی بهی امید نہ ہوتی اس رات ننھی کی اماں اسے جلدی سلانے کی کوشش میں لگی رہتی مگر جب بھوک ستاتی تو وه ماں سے چهپ کر اچهی آپا کے گهر کی طرف بهاگتی۔ اسے دیکھتے ہی اچهی سمجھ جاتی کہ آج پهر ننهی بهوک سے تنگ آکر اس کے پاس آئی ہے۔ آپا اس کو دیکھ کر مسکراتی اور اپنی روکهی سوکهی روٹی اس کے آگے رکھ دیتی۔ وه ایک دو بار تکلف میں انکار کرتی مگر تیسری بار انکار بهی نہ کر پاتی۔
صبح اماں جب اپنی ننھی کی تلاش میں آتی تو اس کو آپا کی چارپائی پر سوتا دیکھ کر مسکراتی اور کہتی یہ تو جی ہی نہیں سکتی تمہارے بغیر۔
ننهی روز اپنی آپا کے ساتھ کھیتوں پر جاتی۔ کام کے دوران ننھی آپا سے ہی چپکی رہتی۔ اس کےسوالوں کا سلسلہ جو شروع ہوتا تو غروب آفتاب تک جاری رہتا پر ایک سوال ننھی بار بار پوچھا کرتی کہ انسان امیر کیسے ہوتا ہے اور آپا ہر دفعہ اسے بتاتی کہ جب انسان خوب محنت کرے تو بس وہ امیر ہو جاتا ہے۔ مگر ننھی کی تسلی نہ ہوتی اور نئے سوال شروع ہو جاتے
ننھی کہتی۔ جب انسان امیر ہوتا ہے تو اس کو روز روٹی ملتی ہے
آپا مسکراتی اور اثبات میں سر ہلا دیتی۔ ننھی کی لیکن اس پر بس نہ ہوتی اور وہ اپنی آنکھیں گھماتی اور نیا سوال داغ دیتی۔
مگر ابا تو دن رات محنت کرتا ہے وه تو امیر نہیں
اس کے پاس تو کچھ بهی نہیں۔ اور وڈیرا سائیں تو بس حکم دیتا ہے۔ کرتا تو کچھ بهی نہیں۔ پهر بهی اس کے پاس اتنی ڈھیر ساری گندم، چاول، اناج ہے۔
اس پر اچھی ہونٹوں پر انگلی رکھتی اور کہتی “چپ کر جا اس کے کارندوں نے سن لیا تو ماریں گے۔
اور ننھی سہم کر اچھی آپا کے سینے میں سمٹ جاتی
ننهی کی باتوں کی وجہ سے سورج کے ساتھ ساتھ آپا کا دل بهی ڈوبنے لگتا پر پھر وہ کسی بہانے بات پلٹ دیتی۔
بس اسی طرح باتیں اور کام کرتے کرتے ننهی اور اس کی آپا واپسی کی راه لیتیں۔
وہ بھی ایسی ہی ایک شام تھی پر اس شام واپسی پر آسمان پر لالی بہت خوفناک تهی بہت تیز ہوا چل رہی تهی آپا اپنی چادر کو بار بار سنبھالنے کی کوشش میں لگی تهی مگر وه اس طوفان سے بے خبر تهی جو اس کی زندگی میں آنے والا تها پهر اچانک اس آندھی کے ساتھ چار آدمی آئے جو اچهی آپا کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ ننھی نے آپا کی چادر جس کو آپا سر سے کبھی نہ اتارتی تهی زمین سے اٹهائی اور گاڑی کے پیچھے بهاگی مگر گاڑی کی رفتار بہت تیز تهی۔
ننھی روتے دهوتے گهر کو پہنچی۔ آپا کے گهر والوں کو بتایا تو گهر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ زور زور سے رونے کی آوازوں نے ننھی کو مزید خوف زدہ کر دیا۔ ننھی ساری رات خواب میں اپنی آپا کو پکارتی رہی
صبح ہوتے ہی گهر سے باہر جب اس کی نظریں اپنی آپا کو تلاش کر رہی تهیں۔ تو دور سے ایک بد حال لاشہ لڑکھڑاتا ہوا اس کی سمت آیا۔ ارے یہ تو اس کی اچهی آپا تهی پر نہ اس کے سر پر چادر تهی اور نہ پاوں میں چپل۔ کپڑوں کے نام پر جسم پر کچھ دھجیاں جھول رہی تھیں۔ سارے بدن پر زخموں کے نشان ،ہونٹوں سے خون ،لمبی کالی چوٹی جس کی ننھی دیوانی تهی وه غائب اور اس کی جگہ بکھرے اور نچے ہوئےبال۔ گالوں کی لالی کے بجائے چہرے پر نیلے دهبے ، بڑی بڑی آنکھیں خوف سے اور پھٹی جا رہیں تھی۔ مٹی سے اٹے چہرے پر آنسوؤں نے نہریں بنا ڈالی تھیں۔ مگر یہ مٹی چہرے پر لگےنیلے کالے دهبوں کو چھپانے کے لیے نا کافی تهی۔ ننھی سکتے کی حالت میں آپا کو تکتی رہی اوراس کی آپا گرتے پڑتے اپنے گهر کی چوکهٹ پر پہنچتے ہی زمین پر گر گئی
گهر میں کہرام برپا ہو گیا۔ ننهی کی سمجھ کچھ نہیں آرہا تها کہ آخر یہ ماجره ہے کیا۔ عورتیں اشکبار کیوں ہیں۔ مرد سرگوشیاں کیوں کر رہے ہیں۔ گهر والے تھانے بھاگے پر کچھ گھنٹوں بعد مایوسی چہروں پر اوڑھے لوٹ آئے۔
گاوں کا معاملہ گاوں تک ہی رہے اس کے حل کے لئے وڈیرے نے جرگہ لگایا۔ انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں اچهی آپا کی عزت رکھی اور دوسری طرف تیس من گندم۔ وزن کو برابر جانتے ہوئے تیس من گندم اچهی آپا کے باپ کو دینے کا حکم صادر کیا۔ تاکہ حساب برابر ہو جائے۔
مگر باپ کی غیرت یہ بات کہاں گوارا کرتی کہ اس کی بیٹی کی انمول عزت کے دام لگائیں جائے اور وه بهی گندم کے دانوں کی صورت۔ باپ کا سر انکار میں کیا ہلا قیامت آ گئی۔ حکم عدولی کو بغاوت سمجھا گیا اور علاقہ بدری کا حکم جاری ہو گیا
گندم واپس اٹھانے کے لئے ابھی کا اور اچهی آپا اور اس کے گهر والوں کو علاقہ بدر کرنے کے لیے صبح کا وقت مقرر کیا گیا
ننھی گندم کی بوریوں کے پاس کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تهی اور تیس من گندم کی واپسی پر حیران تهی۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تهی کاش یہ گندم اس کے ابا کو مل جاتی۔ تو روز تازہ روٹی کهاتی۔
ابهی اس سوچ سے باہر ہی نہ نکلی پائی تهی کہ وه ہی آدمی جو اچهی آپا کو لے کر گئے تهے ان بوریوں کو واپس ڈالے میں ڈالنے کو لپکے۔
ایک نے ننھی کی حسرت بهری نگاہوں کو بهانپ لیا اور اس سے پوچھا
گندم چاہیے”۔ ننھی نے معصومیت میں سر ہاں میں ہلا دیا۔ ”
علی الصبح جب اچهی آپا نے علاقہ چھوڑنے کے لیے دروازہ کھولا تو ننهی کے گهر کے باہر تیس من گندم کے ساتھ خون میں لت پت ننھی کی لاش ملی
پس نوشت : یہ افسانہ نہیں ہے۔ کچھ مدت قبل عزت کے بدلے تیس من گندم کا پنچایتی فیصلہ ملکی میڈیا میں رپورٹ ہوا لیکن سیاست کے شور میں کہیں گم ہو گیا۔
بہ شکریہ: ہم سب