لوگوں کا خیال ہے کہ ہم خواتین کے لیے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے حق میں لکھتے ہیں۔ ارے جناب آج اس غلط فہمی کو ہم دور کئے دیتے ہیں۔ ہم اس خیال کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کہ ہم صرف عورتوں کے حق کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو مظلوموں کے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ ستم رسیدوں کی داستان بیان کرتے ہیں۔
ہم تو تذکرہ کرتے ہیں لوگوں کی جگ بیتی کا۔ سیدھے سادھے الفاظ کا چناؤ کر کے لکھنے کی جسارت کرتے ہیں۔ کبھی کسی کی آنکھیں پونچھتے پونچھتے خود رو پڑتے ہیں۔ کبھی ہنسی مذاق میں لوگوں کو مسکراہٹ دے کر ان کا غم غلط کر کے خوش ہو لیتے ہیں۔ آج پھر قلم کچھ بے زبانوں کی زبان بن کر حرکت میں آیا ہے۔ جس مخلوق کے بارے میں ہم لکھ رہے ہیں ان کو معاشرے میں اکثر ظالم، جابر، سفاک، کٹھور، شقیق القلب، بے رحم اور نجانے کن کن القاب سے نوازا جاتا ہے۔ جی جی آج ذکر خیر ہے ان آدم زادوں کا جو زمانے کے ظلم سہتے بھی ہیں اور ان کی شنوائی بھی نہیں ہوتی۔ ستم ظریفی تو دیکھئے بعض اوقات ہنسی مذاق کو سنجیدگی سے لے کر ان پر تابڑ توڑ حملے کر دیئے جاتے ہیں۔
ایک صاحب ملول سے بیٹھے تھے۔ ان کے گھریلو حالات نہایت کشیدہ تھے۔ اسی حالت غم میں انہوں نے ایک بزم میں لطیفہ سنانے کی گستاخی فرما دی۔ کہنے لگے” ایک آدمی نے ایک کتے سے پوچھا کہ تم نے شادی کیوں نہیں کی؟ کتے نے جواب دیا “میں تو پہلے ہی سے کتا ہوں، مجھے شادی کی کیا ضرورت” ایک خاتون جو اسی محفلِ میں تشریف فرما تھی۔ بڑے ادب سے اٹھی اور فرمانے لگی کہ “اگر میں اپنی جان کی امان پاؤں تو آپ کی بات کی تائید کے لیے کچھ عرض کرنا چاہوں گی”۔ محترم نے تائید کا سنتے ہی اجازات دے ڈالی۔ فرمانے لگی کہ ” قبلہ آپ نے لطیفہ آدھا سنایا ہے میں پورا کئے دیتی ہوں۔ تاکہ اس کی تشریح بھی ہو جائے ” کہنے لگی “آپ نے سچ کہا کہ شادی کے بعد آدمی پر یہی بیتتی ہے وہ بچوں کا وفادار ہو جاتا ہے، پرائی عورت کے پیچھے دم ہلاتا ہے اور بیوی پر غراتا ہے ” خاتون تو یہ کہہ کر یہ جا اور وہ جا۔ ادھر اتنی جامع تشریح کے بعد اس ستم رسیدہ کے لیے اپنے کہے کو نہ نگلا جا رہا تھا نہ اگلا۔ اب یہ ہی دیکھ لیجے اس بچارے نے اپنی داستان غم سنائی اور دوسری جانب سے نمک پاشی کر دی گی۔ مان لیجیے کہ مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں۔
ہمیں حضرات کی بے کسی اور بے بسی دکھائی دے بھی جائے تو اس کو ہنسی مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ ایک فلم ہے جس میں کسی عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے تو اس منظر کو اس انداز سے دکھایا جاتا ہے کہ تمام کی تمام ہمدردی خاتون کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے۔ جو کہ سو فیصد درست بھی ہے۔ ایسے ہی نازک حالات سے مردوں کو دو چار ہوتا دکھایا جائے تو وہ مقام مزاح بن جاتا ہے۔ عام طور پر سینما گھروں میں ایسے مواقع پر دبی دبی سی ہنسی کے ساتھ زور دار قہقہے کی گونج بھی سنائی دے جاتی ہے۔ یہاں یہ سوال لازم ہے کہ مرد کو جب عزت کے لالے پڑتے ہیں تو ان کا تمسخر کیوں اڑایا جاتا ہے۔ کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟
جائے زمیں پر اس مخلوق کو سب سے زیادہ گالیاں پڑنے والی جائے وقوع کو ڈلیوری روم کہا جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتال کا ڈیلیوری روم اعلیٰ نسل کی گالیوں کا کورس کرنے کے لیے نہایت ہی موزوں جگہ ہے۔ ہمارے خیال سے ایک منفرد اور نایاب لغت کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ مگر جس کو گالیاں پڑ رہی ہوتی ہیں وہ اسی روم کے باہر زچہ و بچہ کے لیے دعا گو ہوتا ہے۔ ایک ہاتھ میں اکثر دوائیوں کا لفافہ اور دوسرے میں رقم لیے ایک پاؤں پر کھڑا نظر آتا ہے۔
بلاشبہ یہ وہ مقام ہے جہاں زندگی اور موت کی لڑائی لڑی جاتی ہے ہم اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہی کہ اس دنیا میں بچے کو لانا نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ بس ہماری ناقص عقل میں یہ بات نہیں سماتی کہ بیگمات عالم درد میں صرف مردوں کو ہی دوشی کیوں گردانتی ہیں۔ جیسے وہ اس عمل کے دوران گہری نیند کی آغوش میں تھیں۔ کیا پہلی بار کے بعد ان کو اندازہ نہیں ہوتا یہ کتنا جان جوکھوں کا کام ہے؟ تو پھر اس کے لیے تیار ہی کیوں ہوتی ہیں۔ جب ہو ہی جاتی ہیں تو زبان کو قابو رکھ لیا جائے تو مناسب ہوگا۔ باہمی رضامندی سے ہونے والے عمل میں لغویات کا حقدار مرد ہی کیوں؟
ہماری ایک عدد مہترانی تھی جنہوں نے گھر گھر کا پانی پی رکھا تھا۔ آئے دن اپنے اوپر ہونے والی ظلم کی داستان سنا سنا کر ہمیں غمگین کئے رکھتی تھی۔ ایک دن بہت ہی ہنستے ہنستے ہمیں بتا رہی تھی کہ فلاں باجی نے اپنے شوھر کی خوب دھنائی کی۔ بالوں سے پکڑ کر دیوار سے دے مارا۔ یہ سن کر ہمارا دل اتنا ہی دکھی ہوا جتنا ان کے پٹنے پر ہوتا تھا۔ بلکہ اس سے زیادہ۔ کیونکہ وہ مار بھی کھاتا تھا اور لوگ اس پر ہنستے بھی تھے۔ خاتون کوئی چھ فٹ دراز تھی اور میاں پانچ فٹ کے۔ کیا قد اور جسمانی قوت ہی مارنے کی ضمانت ہے۔ اگر ہاں تو جب وہ خاتون خود مار پیٹ کا شکار ہوتی تھی تو رونا دھونا کیوں؟ ظلم تو دونوں جانب ہی تھا۔ پر واویلا ایک پر کیوں؟ بس ظلم کرنے والے کی جنس میں فرق تھا۔ اس لیے اس سے اظہار ہمدردی کرنے کے بجائے اس کی تضحیک کی گئی۔ یہ دوغلا پن، یہ ترازو کا ایک سمت جھکاؤ نہایت نامناسب ہے۔ سوال یہ ہے کہ مرد پر تشدد پر اتنی بے رخی کیوں؟
یہ ظلم بہت ہی عام ہے کہ مردوں کی محنت کی کمائی کو مہنگے مہنگے زیورات میں بدل کر نمودو نمائش کی جائے۔ ان کو پہن کر کسی دوسرے کی گھر والی کو اکسایا جائے۔ مردوں کی کمائی کو قیمتی جواہرات میں اڑانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم آج حلفاً کہہ رہے ہیں کہ یہ ہیرے موتی کسی بھی خاتون کے مکھڑے کو چار چاند لگانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حرام ہے جو دھیلے بھر کا فرق لے آئے کسی کےحسن میں۔ ہم سے تو قسم لے لیجیے جو آج تک ہمیں ہیرے کی پہچان ہوئی ہو۔ کوئی چند سو روپوں کی انگوٹھی کو یہ بتلائے کہ یہ دیکھو ہیرا پہنا ہے تو ہم فوراً مان جاتے ہیں اچھا بھئی ہیرا ہی ہوگا۔
خواتین کے دلوں کو یہ بات بہت بھاتی ہے کہ حضرات گھروں کے کاموں میں دلچسپی لیں۔ ہماری خواتین خانہ سے التماس ہے کہ جیسے گھر میں مردوں کی دلچسپی ان کو بھاتی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ یہ خواتین کچھ باہر کے کام خود سر انجام دے دیں۔ تاکہ کاموں کا پلڑا دونوں جانب برابر رہے۔ اس طرح کاموں کا جھکاؤ ایک جانب نہ ہوگا۔ گھریلو خواتین اگر گاڑی چلانے کی خود جسارت کر لیں تو زندگی کچھ کمانے والے کی بھی آسان ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ خواتین اس لیے گاڑی چلانے سے پرہیز کرتی ہیں کیونکہ ان کو ہر جگہ مردوں کو اپنے پلو سے باندھ کر رکھنا پسند ہوتا ہے۔
اب سنئے اس جبر کا تذکرہ جس پر باقاعدہ ناز کیا جاتا ہے۔ بچپن سے اس بات کو ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے کہ مرد مضبوط اعصاب کی ایک ایسی مخلوق ہے جس پر غم، دکھ، درد کے موسم اثر نہیں کرتے۔ ان کو مشکل سے مشکل حالات میں اپنے جذبات پر قابو پانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ آنسو بہانا ان کی آن کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ دل کتنا بھی شکستہ کیوں نہ ہو، پلستر پر دراڑ آنے سے روک دیا جاتا ہے۔
مرد کو ان جذبات سے عاری بنانا قابل فخر سمجھا جاتا ہے تو پھر اگر وہ اظہار محبت کے جذبے میں کوتاہی برتے ہیں تو شکایت چہ معنی دارد؟ پھر قیامت برپا کرنا جائز کیوں ہے؟ صرف مرد معاشرہ نہیں بناتا عورت بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہے۔ جہاں کچھ روایات عورتوں کے لیے تکلیف دہ ہیں وہاں مان لیجیے کچھ دشوار گزار راستوں پر چلتے چلتے دوسری صنف کے پاؤں بھی لہو لہو ہوتے ہیں۔
بہ شکریہ: ہم سب