صبح سویرے لٹن میاں کی آنکھ کھل گئی۔ جاگنے سے عین پہلے وہ کلو کمہارن کی پنڈلیوں کا دیدار فرما رہے تھے۔ جس ماحول میں لٹن میاں نے پرورش پائی وہاں ان کے اور ٹیلی وژن، وی سی آر وغیرہ تک رسائی کے درمیان غربت کی خوفناک عفریت کھڑی رہتی۔ ایسے میں سوتے ہوئے کلو کمہارن کی پنڈلیوں پہ ہی لٹن میاں کا لڑکپن پگھل جاتا اور ان کی آنکھ کھل جاتی۔
لٹن میاں کافی دیر تک اسی حالت میں لیٹے رہے۔ کلو کمہارن کے گیلی مٹی سے لتھڑے ہاتھ جس سے بار بار وہ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے کی ناکام کوشش کیے جارہی تھی، اس کے ذہن پہ سوار تھے۔ اس کی آستین میں چھید تھا جس سے اس کے بازو پہ ٹیکے کا نشان واضح دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بالوں سے چمبیلی کے تیل کی مہکتی خوشبو لٹن کی نتھنوں سے ہوتے دماغ میں پہنچتی اور وہاں سے کئی اعضاء میں ہلچل مچا دیتی۔ لٹن میاں کو احساس جرم سا محسوس ہوتا مگر ٹھیک اسی وقت وہ چشم زدن میں کلو کمہارن کو مزید جھکے گری ہوئی مٹی سمیٹتے دیکھتے اور اس کے بعد جذبات سے مغلوب اپنا ہاتھ اپنی ران کے قریب لے جاتے۔ اس کے بعد لٹن میاں کے پردہ خیال پہ کلو کمہارن کے یہ تمام منظر نامے ایک فلمی سین کی طرح چلتے رہتے جب تک لٹن کا لڑکپن اسے اس کے خیالات کے عروج پہ پہنچا کر اچانک واپس اس گند میں نہ دے مارتا جو وہ اس وقت تک بستر پر پھیلا چکا تھا۔ یہ تمام کہانی قریب ہر ہفتے واقع پذیر ہوتی۔
لٹن نے اٹھ کر جلدی جلدی اپنے کپڑے دھوئے، اپنے کمرے میں لٹکائے اور پھر اپنی فالج زدہ ماں کو جگانے دوسرے کمرے میں پہنچ گیا۔ ماں جو کبھی تندرست تھی جس کی صحت کے ہوتے میاں لطیف عرف لٹن میاں نے کبھی باہر کی دنیا کے تھپیڑے نہیں کھائے تھے۔ پانچ سال پہلے اماں کو فالج ہوا اور پھر وہ ایک زندہ لاش سی برہ گئی۔ اب سب کچھ لٹن میاں کے پندرہ سالہ کاندھوں پہ آن پڑا تھا۔ ماں کو جگانے کے بعد لٹن نے شمی اور فاطمہ کو جگایا۔ اس کی دونوں بہنیں ابھی چار اور پانچ سال کی تھیں۔ شمی اور فاطمہ نے پرسوں شام کی پڑی روٹی پہ پانی کے چھینٹے مارے اور گرم کر کے چائے کے ساتھ لٹن کے آگے رکھ دی۔ شمی برتن دھونے کھڑی ہوگئی اور فاطمہ اماں کو کل کی بچی مرغی کا شوربہ روٹی سے کھلانے لگی۔ لٹن ناشتہ ختم کر کے تیز قدموں چلتا ہوا باہر نکل پڑا۔ اسے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چل کے اپنے کام پہ پہنچنا تھا۔
یہ ایک چائے خانہ تھا۔ شہر کے مضافات میں ٹرکوں کے اڈے سے کچھ دور واقع ایک چھوٹا سا چائے خانہ۔ یہاں مغرب کے بعد ٹرک ڈرائیور اپنے دنوں پہ محیط سفر کے دوران رات پڑاؤ ڈالتے۔ اڈے کے ساتھ ہی ایک پنکچر اور ایک مکینک کی دوکان تھی۔ ٹرک اڈے اور ان دوکانوں پہ آنے والے لوگوں کو ہمیشہ چائے اور سکون کی طلب رہتی اور اسی طلب کو پورا کرنے میں چائے خانے کے مالک انور گل اور لٹن میاں کے گھر کی بقاء مضمر تھی۔
لٹن میاں صبح سات بجے سے شام سات بجے تک دل سے کام کرتے رہے۔ اس دوران انہیں بیس روپے دن کا ملتا۔ بیس روپے۔ لٹن سوچ میں پڑ گیا۔ یہ بیس روپے تو کرائے میں ہی خرچ ہوجاتے اگر لٹن گھر سے چائے خانے تک پیدل آیا جایا نہ کرتے۔ بیس روپے یومیہ میں اماں کی دوائی نہیں آسکتی تھی۔ بیس روپے دن کے شمی اور فاطمہ کی بھوک مٹانے کے لیے کم تھے۔ بیس روپے دن کے گھر کا کرایہ بھی پورا نہ کر پاتے۔ ابھی لٹن اسی سوچ میں تھا کہ انور گل نے اسے مخاطب کر کے اپنے پاس بلایا اور آج کے بیس روپے لٹن کے ہاتھ میں تھماہے اور اپنے پشتون لہجے میں بولا: “لو یارا لطیف خاناں، عیاشی مارو، اور یہ پکڑو چائے کا چینک، وہ سریاب آفریدی کا ٹرک کڑا اے اسے یہ آخری چینک دے کر تم گر کو نکلو، تمارا ماں تمارا راہ دیکھتا ہوئے گا”۔
لٹن نے بیس روپے جیب میں رکھے، چاہے کی چینک اٹھائی اور ٹرک اڈے پہ زریاب آفریدی کے ٹرک کی جانب بے دلی سے چل پڑا۔ اس کا دل اسے روک رہا تھا مگر دماغ ایک بار پھر گھر کا گرایہ، بہنوں کی بھوک اور ماں کی دوائی یاد دلانے لگتا۔ اسے کلو کمہارن بھی دو گھڑی یاد آتی مگر پھر وہ یہ سوچ کر اپنا سر جھٹک دیتا کہ اس کی حقیقت جان کر تو کلو کمہارن بھی اسے قبول نہ کرے گی۔ کلو کمہارن۔ صبح کے خواب پھر سے اس کی آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگے۔ کلو کمہارن کی پنڈلیاں! آہ!۔ ۔ ۔
“راشہ لطیف خانہ سنگا اے؟”
زریاب آفریدی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اور لٹن کلو کمہارن کی پنڈلیوں کے خوبصورت خیال سے اچانک زریاب آفریدی کے بساند زدہ ٹرک کی حقیقت میں واپس آگیا۔ زریاب نے کچھ کہا تھا، جو شاید اس کے خوبصورت خیالات میں ایک پتھر کی طرح آ کر لگا مگر شاید زریاب نے پشتو میں کچھ کہا، یا پھر وہ کلو کمہارن کی پنڈلیوں میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ اس نے کچھ سنا نہیں۔ لٹن گڑبڑا کر بولا، “جی خان کیا کہا؟”۔ خان نے فوری جواب دیا “مڑاں ایک تو تم پشتو نئی سمجھتا، بڑا مشکل ہوتا اے یارا، خو بس چوڑو، یہ بتاؤ کیسے او”۔
کیسا ہوں؟ لٹن نے خود سے سوال کیا۔ صبح سے شام تک انتھک محنت کے باوجود وہ جسمانی طور پہ ٹھیک تھا مگر اتنی محنت کے بعد بیس روپے ملنے پہ وہ مغموم تھا۔
زریاب آفریدی اپنا ٹرک ہمیشہ اڈے سے تھوڑا ہٹ کے کھڑا کرتا۔ شروع میں اسے حیرت ہوتی کہ ایسا کیوں، تاہم کچھ عرصے میں اسے سمجھ آگئی۔ لٹن سوچ میں گم تھا کہ اچانک زریاب نے اس کے ہاتھ سے چائے رکھی اور اس کا ہاتھ تھامے ٹرک کے ڈالے میں لے گیا جہاں سامان رکھا تھا۔ لٹن خاموشی سے چلا آیا۔
“بیس روپے، ماں کی دوا، بہنوں کی بھوک، گھر کا کرایہ”۔ وہ ایک بار پھر اسی سوچ میں چلا گیا۔ لٹن ذہنی طور پہ بیس روپے ملنے پہ ہمیشہ کی طرح مغموم، اور اب ٹوٹنے کے بہت قریب تھا کہ اچانک ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پہ رسید ہوا۔ وہ خیالات سے واپس حقیقت کی دنیا میں آگیا۔ حقیقت کی دنیا۔ ٹرک۔ جس میں سبزیاں ہی سبزیاں لدی تھیں۔ لٹن نے محسوس کیا کہ اس کی قمیض اتری ہوئی ہے۔ تھپڑ پڑنے کی وجہ زریاب آفریدی کا تین بار شلوار کا کمربند کھولنے کا مطالبہ تھا جو سوچ میں گم ہونے کی وجہ سے لٹن پورا نہ کر سکا۔ اب جبکہ وہ واپس اس بدبودار حقیقت میں واپس آچکا تھا تو اس نے زریاب آفریدی کی آواز سنی۔ “جلدی کرو یارا چائے بی پینا اے”۔ لٹن نے کمر بند ڈھیلا کیا۔ اب وہ مکمل برہنہ تھا۔ زریاب آفریدی نے اسے گلے ہوئے ٹماٹر کی ایک پیٹی پہ دھکیلا اور وہ اوندھے منہ گر پڑا۔
یہاں سے آگے جیسے وقت تھم سا گیا۔ لٹن کے منہ سے تھوک نکل کر ٹماٹروں پہ گر رہا تھا۔ اسے جسمانی کرب سے گزرنے کا کوئی حل سمجھ نہ آتا تو وہ واپس اپنی سوچ کی دنیا میں جا پہنچتا۔
دوا پیتی ماں۔ پیٹ بھر کے کھانا کھاتی بہنیں۔ کرایہ لے کر شکریہ ادا کرتا مالک مکان۔ اور جب وہ ان تینوں میں گم ہونے لگتا تو جھکتی ہوئی کلو کمہارن کا چھلکتا ہوا دوپٹہ۔
لٹن چائے کے برتن واپس کرنے انور گل کے چائے خانے پہنچا۔ انور گل کا دوسرا شاگرد آچکا تھا اور باہر کرسیاں اور میز صاف کرنے میں مصروف تھا۔ لٹن نے ایک گلاس پانی کا پیا اور اس کی نظر ٹی وی پہ پڑی۔ اے آر وائے پہ نفیس کپڑوں میں ملبوس چار افراد بحث کر رہے تھے اور عنوان تھا “قصور میں ایک سو بیس بچوں کے ساتھ بدفعلی”۔
بدفعلی؟ جانے یہ کیا بکواس ہوتی ہے۔ لٹن یہ سوچتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑا۔ اس کا جسم تھکن سے چور تھا۔ وہ دماغی طور پر ٹوٹا ہوا تھا۔ مگر وہ خوش تھا۔
اور خوش کیوں نہ ہوتا؟ لٹن کی جیب میں پورے ایک سو بیس روپے جو تھے!