1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. میری چھوٹی چھوٹی خوشیاں

میری چھوٹی چھوٹی خوشیاں

زندگی میں سکون حاصل کرنے کے لیے بہت چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا feel کرنا اور انہیں celebrate کرنا سیکھنا پڑتا ہے، چھوٹی سی باتوں کے لیے دل سے اہتمام کرنا پڑتا ہے، بہت سی فضولیات کو دیکھ کر ان دیکھا کرنا پڑتا ہے، جن مسائل کا کوئی حل نہ ہو انہیں operational issues مان کر ساتھ لیے آگے چلنا پڑتا ہے۔

مثلاً دہی جمانا تھا۔ ہم چلے گئے کولز جو یہاں کی دو بڑی اور سب سے زیادہ پائی جانے والی grocery store chains میں سے ایک ہے۔ ہم گئے پورے ٹبر کے ساتھ۔ ہم ایسے ہی جاتے ہیں۔ شیمپو کی بوتل لینی ہو یا گھر کا ماہانہ سودا سلف، ہم سب اکٹھے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر سوچا جائے تو اسے بھی سیلیبریٹ کیا جا سکتا ہے۔ ہم چار بہن بھائی تھے۔ اماں ابا اکیلے بائیک پر جاتے تھے اور کبھی کبھار دو چکر لگا کر مہینے کا سودا لے کر آتے تھے۔ اس وقت کسی کو ہوش نہیں تھا، اب ہے، کم از کم مجھے۔ بچوں کو دور دور تک یہ بات سمجھ نہیں آسکے گی لہذا سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس گھر میں ایک روایت سی ڈالی ہوئی ہے کہ جائیں گے تو حتی الامکان کوشش ہوگی کہ سب اکٹھے جائیں گے۔

میں اسے بھی سیلیبریٹ کرتا ہوں۔

دہی کے لیے دودھ چاہیے ہوتا ہے۔ دودھ درجن قسم کا ملتا ہے۔ فریش، لانگ لائف اور پتہ نہیں کون کون سا۔ مجھے پسند ہے اعلیٰ قسم کا ملائی والا دہی۔ یہاں اس ملک میں extra fat والا خالص تازہ دودھ مل جاتا ہے۔ میں ہر بار اسے دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ یہ عام دودھ کی نسبت بہت مہنگا نہیں ہوتا۔ کتنے کا ہوتا ہے مجھے نہیں پتہ۔ بس یہ معلوم ہے کہ بہت فرق نہیں۔ میرے لیے یہ بھی خوشی کی بات ہے۔ میں اس دودھ میں مزید بالائی ڈال کر ابالتا ہوں اور دہی جما لیتا ہوں۔ ابالتے ہوئے دودھ کو پھینٹتا رہتا ہوں۔ مجھے اس میں بھی چھوٹی سی خوشی مل جاتی ہے۔

میں اسے اپنے ہاتھ سے دوسرے برتن میں ڈالتا ہوں اور پھر اس میں پرانا دہی یا کیفر کے دو تین چمچ ڈالتا ہوں۔ اب دہی اور میرے بیچ بس انتظار رہ جاتا ہے۔ یہاں سے میں آٹھ گھنٹے کا ٹائمر لگا کر کسی اور کام میں لگ جاتا ہوں۔ مجھے اس میں بھی چھوٹی سی خوشی دستیاب رہتی ہے۔ آٹھ گھنٹے بعد دہی کو کھول کر چکھنا اور "سبحان اللہ" کہہ کر فریج میں رکھ دینا، میں اس میں سے بھی خوشی کشید کر لیتا ہوں اور پھر روزانہ صبح اسی دہی کی لسی اور ملائی کھا کر بھی خوش ہو جاتا ہوں۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ صرف دہی بناتے بناتے آپ نے کتنا سارا اطمینان حاصل کر لیا!

برصغیر میں ہولی، لوہڑی، بسنت بھی ہوتی ہوں گی کبھی ثقافت کا حصہ۔ ثقافت مگر کب جمود کا شکار ہو پائی ہے؟ کبھی ایسا وقت بھی ہوتا ہی ہوگا جب بسنت، لوہڑی اور ہولی نہیں بھی ہوتی ہوں گی۔ تب ثقافت کچھ اور ہوتی ہوں گی۔ ان تینوں تہواروں نے بہرحال کبھی نہ کبھی تو معاشرت میں اپنا راستہ اپنا مقام بنایا ہی ہوگا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو رمضان عید الفطر اور عید الاضحی مجھے بطور روایت و ثقافت ورثے میں ملے۔

عربوں کے تہوار مجھ تک کیوں کیسے پہنچے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ میں بہرحال اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا کہ میرے لیے یہ اس روایت و ثقافت کا درجہ رکھتے ہیں جسے میں چھوڑ آیا۔ اب میں جس جگہ پر ہوں وہاں کی ثقافت الگ ہے۔ میں مگر nostalgic ہوں۔ مجھے افطاری کے وقت کھجور کھانا اپنا بچپن یاد دلاتا ہے۔ میرے لیے ایک دسترخوان پر بہن بھائیوں اماں ابا سب گھر والوں کا اکٹھا بیٹھنا اب ایک خواب سا ہے۔

اور میں یہ خواب اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ پورا کرتا ہوں۔

معاف کیجیے گا، میرا مقصد ہرگز مذہبی تہواروں کا مقدمہ لڑنا نہیں۔ میں بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں اب یہ تہوار ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے ہیں اور ایسا صرف ہمارے لیے نہیں یہاں کی دیگر قومیتوں کے لیے بھی ایک کلچرل تہوار ہیں۔ وزیراعظم رمضان کے آغاز پر بطور روایت مبارک باد کا پیغام جاری کرتا ہے۔ میں "اللھم انی لک صمت وبک آمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت" کو بھی بطور روایت بطور ثقافت بخوشی قبول کر چکا ہوں۔

اور یقین کیجئے مجھے اس میں بہت خوشی، بہت سکون ملتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ خوشی آپ کی ذات کے اندر سے آتی ہے۔ باہر سے آپ بس خوش ہونے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ خوش ہونے کے یہ بہانے آپ کو ہر ہر مقام پر دستیاب ہوتے ہیں۔ آپ نے بس ان opportunities کو avail کرکے خوش ہونا ہوتا ہے۔ پھر میرا یہ بھی ماننا ہے کہ آپ جتنا زیادہ بغیر دوسروں کی involvement یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں avail کرتے رہیں گے آپ اتنا ہی زیادہ پرسکون رہنا شروع کر دیں گے۔

میرا خیال ہے محرومی اسی وقت محرومی بن کر آپ کو ڈرا سکتی ہے جب آپ اسے نظرانداز نہ کر پائیں اور آپ محرومی کو اس وقت تک نظرانداز نہیں کر پاتے جب تک آپ چھوٹی چھوٹی خوشیاں celebrate کرنے کے فن سے آشنا نہ ہوجائیں۔ بے حسی کو حقیر نہ جانیے صاحب، درست استعمال کی جائے تو بڑی نعمت ہے یہ۔

یہ۔۔ مورخہ 6 مارچ 2025 تک کے میرے خیالات ہیں۔ اگلے سال بھی یہی ہوں گے اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ویسے بھی جمود بس کچھ لمحوں میں حسین لگتا ہے۔ مثلاً آپ اپنی سب سے چھوٹی اولاد کے ساتھ جھیل کنارے بیٹھے ہوں اور اس کی باتیں سن رہے ہوں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ وہ لمحہ بس وہیں ٹھہر جائے اور ہم اس لمحے میں موجود اس تصویر کا جامد اور لامتناہی حصہ بن جائیں۔