تمہاری آگہی کے افتخار پر میری لعنت
تمہاری فضیلت کے معیار پر میری تھو
تقدیس سے تمہاری ضد یہ تمہاری انا
کہ خود مقدس ہوئے ضدِ تقدیس میں تم
تم کہ نکلے تھے خدا کے قاتل بننے
پر ہلاکت تمہاری فکر کا مقدر ٹھہری
اور تمہارا مقدر بھی مقدر ایسا
پڑاؤ ڈالے کسی صحرا کے بیچ
آس میں آب کے اک لاش کی مانند
جس کو امید تھی قبل از وفات اپنی
کہ وہ ہلائے گا دنیا کو اک دن
پھر مگر دن وہ کہ نہ کبھی ہاتھ آیا
اور جو آثار ہیں فی الوقت تمہارے لاشے کے
فکر تمہاری رہے گی یونہی کرب میں اب
یونہی تڑپتے سے ترستے سے افکار
جیسے بوسیدہ سا گلا سڑا جسم کوئی
حیات جس سے اخراج کی تگ و دو میں ہو
ہر خلیہ جس کا ریت میں جائے پھر کھو
تم سے پہلے ہے گزرا یہاں جہاں اک اور
فرد بہ فرد جسم بہ جسم جاں بہ جاں
تھامے کاندھے پہ دلائل کے ترکش وہ بھی
سونتے شمشیر ِ حجت، منطق کی تیز دھار لیے
یہاں وہ آیا یہاں سے گزرا گیا وہ بھی وہاں
نہ خیر آئی اس کی نہ خبر کوئی
وقت۔۔
جو گواہ تمہارا ہمارا اور سبھی پچھلوں کا
ہر آنے والے سے یہی کہتا ہے
خدا بخشے بڑے تھے لوگ بھلے
خدا کو مارنے وہ سب جو کبھی نکلے تھے