آج کی عید نماز بھی کچھ عجیب ہی گزری۔ شاید اپنی طرز کی پہلی ایسی نماز رہی۔
ہوا کچھ یوں کہ میں، چھوٹا بھائی، میرا بیٹا ارحم اور کزن گھر پہ تھے۔ بھائی دیر میں پہنچا تھا۔ اس سے پہلے ہم تینوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ نماز بوجہ کرونا کا خطرہ گھر پہ پڑھیں گے۔ ہم فیصلے پہ قائم تھے کہ نانا آگئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ان کا دل ہے جانے کا۔ بادل نخواستہ ہم بھی تیار ہوگئے۔
تینوں نے ماسک چڑھائے، جائے نمازیں اٹھائیں اور عین نماز کے وقت گلی میں پہنچ گئے تاکہ باہر ہی باہر جائیں اور والس آجائیں۔
آخری لمحوں میں فیصلہ ہوا سو کچھ پہلے سے گڑبڑائے ہوئے تھے۔ نماز کی جگہ پہنچے تو وہاں گلی میں پانی تھا۔ نانا کو خشک جگہ مل گئی۔ انہوں نے مصلہ بچھا لیا۔ ہماری جائے نماز گندی ہوجائے گی اس خیال سے میں واپس چل دیا کہ تین چار لوگ آجائیں تو میں انکے پیچھے خشکی میں صف بنا لوں گا۔ ارحم اور بھائی میرے ساتھ پلٹ گئے۔
لیکن ہوا یہ کہ میں جیسے ہی واپس پلٹا ایک بندہ جو ہماری جائے نماز کا منتظر تھا، مجھے کچا چبانے والی نگاہوں سے گھورنا شروع ہوگیا۔ اب میں ہوگیا کانا۔ واپس پلٹا اور مصلہ بچھا لیا۔ ارحم نے اپنا مصلہ میرے ساتھ بچھایا۔ کزن پیچھے۔ گھوریاں مارنے والا بندہ ہمارے ساتھ۔
تو بھائیوں سوشل ڈسٹینس کا تو اسی موقع پر ہوگیا انتقال۔
اب میں مزید گڑبڑا گیا۔
خیر۔۔ نماز شروع ہوئی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں سٹپٹایا ہوا تھا، نماز کی طرف دھیان کم تھا۔ اتنے میں امام نے اللہ اکبر کہا۔ میں اور ارحم رکوع میں۔ ابھی رکوع میں گئے ہی تھے کہ ایک اور اللہ اکبر۔ پھر ایک اور۔ نظر دائیں جانب گئی تو ارحم رکوع میں۔ بائیں جانب اور آگے گئی تو سب کھڑے۔
میں بھی کھڑا ہوگیا۔ اب اگلی اللہ اکبر ہوئی تو میں نے تکبیر سمجھ کر ہاتھ اٹھائے مگر اس بار سب رکوع میں۔ تب سمجھ آئی یہ ہوا کیا ہے۔ خیر میں بھی رکوع کو بھاگا اور میری دیکھا دیکھی ارحم بھی۔
لیکن تب تک ذرا دیر ہوچکی تھی اور میرے بھائی کی ہنسی تقریباً چھوٹ چکی تھی۔ سب کچھ اچانک ہوا۔ میں سجدے تک تو برداشت کرتا رہا پھر بھائی کو دیکھ کر میں بھی ہنسی سے لرزنا شروع ہوگیا اور مجھے دیکھ کر ارحم بھی۔
خیر کچھ ہی دیر میں ہم ہنسی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ نماز ختم ہوئی اور اب ہم خطبے کے لیے بیٹھ گئے۔
ابھی پچھلے شاک سے باہر ہی نکلے تھے کہ میری نظر سامنے پڑی۔ ایک صف آگے نمازیوں کی قطار میں آخری مجاہد ایک عدد دنبہ تھا۔ یا الٰہی۔۔ یہ کیا چل رہا ہے؟
ابھی یہی جھٹکہ ہضم کر رہا تھا کہ میری نظر دنبے کے خصیوں پر پڑی۔ خدا کی قسم یہ بڑے بڑے فوطے۔ اب میری آنکھیں واقعتاً حیرت سے پھٹ سی گئیں (آنکھیں ہی پھٹیں پھر دوہرا رہا ہوں)۔ خبیث اتفاق یہ کہ عین اسی لمحے بھائی اور بیٹا میری طرف دیکھرہے تھے۔ گو منہ پہ ماسک تھا، پھر بھی آنکھوں کو حیرت سے یوں کھلتا دیکھ کر ایک بار پھر ان دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ بھلے ہماری بانچھیں ماسک کے پیچھے تھیں مگر پیٹ سے ہنسنے والے جانتے ہیں اس ہنسی کو چھپانا آسان نہیں ہوتا۔
اب ہم ایک بار پھر شاک میں۔ ابھی اس سے نہ نکلے تھے کہ دنبے نے جسم کا اضافی پانی خارج کرنا شروع کر دیا جو پاکستان کے نقشے میں دریائے سندھ کی مانند لکیر بناتا دنبے کے ساتھ بیٹھے نمازی کی جانب چل دیا۔
یا اللہ۔۔ ہنسی روک!
اس سے باہر نکلے تو امام صاحب دعا سے پہلے چندے کی درخواست فرما رہے تھے۔ اسی لمحے چندے کا بکسہ لیے ایک شخص نمازیوں کی گردنیں پھلانگتا ہم تک پہنچ گیا۔ اب تک دعا شروع ہوچکی تھی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک پیسہ نہیں۔ شرمندگی محسوس ہوئی جس سے بچنے کے لیے میں نے دعا کو پھیلے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے جیسے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگ رہا ہوں۔ ارادہ بس چندے کے بکسے سے نظر بچانے کا تھا مگر ایک بار پھر بیٹے اور بھائی کی آنکھیں بند ہوگئیں۔
خیر۔۔ امام صاحب کی دعا شروع تو ہوگئی مگر ختم ہونے کا نام نہ لے۔ بہرحال اللہ اللہ کرکے ختم ہوئی۔
اب ہم کھڑے ہوئے۔ ایک دوسرے سے عید ملی تو اجنبی گلے ملنے آنے لگے جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کرونا کا بڑا ورژن گلے ملنے آرہا ہو۔ اب کے دماغ میں خبث بھرا آئیڈیا آیا۔ جو اجنبی قریب آتا میں کھانسنا شروع ہوجاتا اور اگلا بندہ فوراً دور۔ الحمدللّٰہ۔
بخدا کسی قسم کی مستی کی نیت نہ تھی لیکن پھر بھی یہ سب معلوم نہیں کیسے ہوتا رہا۔ بہرحال۔۔ عید بھی ہوئی عید کی نماز بھی، اور وہ بھی دنبے کے جمبو سائز خصیوں کے سائے میں۔ خدا قبول فرمائے۔ آمین۔ جاتے جاتے آپ سب حضرات و خواتین کو عید مبارک۔