ادیبوں کے عالمی دن کے موقعہ پر وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کے سامنے ساکت بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی (جس سے وہ ٹائپ کرتا تھا) ہوا میں ایسے معلق تھی جیسے کسی جلاد کے ہاتھ میں تلوار کسی معتوب کی گردن اڑانے سے چند لمحے پہلے معلق ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی اسکرینوں پر کئی ادیبوں کے فن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف تھی، بے معنی ستائش کے ہار ان کے گلے میں ڈال رہی تھی اور وہ "آب سچ" کے تلخ گھونٹ پی رہا تھا۔ لکھنا کوئی نعمت نہیں تھا، یہ تو نرا روگ تھا۔
لکھنے والا اگر لفظوں کا قیدی نہ ہو تو وہ لکھاری کے سوا کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ ایسا محرم ہوتا ہے جو سچ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے اور سچ بھی وہ جسے کوئی پڑھنا ہی نہ چاہے اور تحریر کو تحریر تب کہا جاتا ہے جب وہ وہ اپنے لکھنے والے کو مسلسل نوچ نوچ کر نہ کھاتی ہو۔ یہ ایک ایسی لاحاصل کوشش ہے جس سے اس دنیا کی لا یعنیت اور ننگی ہوتی ہے اور جن تضادات میں ڈوب کر یہ ذلت کی انتہا کو چھو رہی ہوتی ہے ان کا سامنا کرنے کی ہمت سوائے روشن گر تحریر کے اور کس میں ہوتی ہے؟
وہ مدتوں پہلے اس سراب سے نکل آیا تھا کہ الفاظ کسی کو آزاد کر سکتے ہیں۔ وہ نہیں کرتے۔ وہ صرف غلام بناتے ہیں۔
مگر پھر بھی، اس روشنائی سے بوجھل وجود کے کہیں اندر، وہ تھی۔۔ سیدہ ھما۔
ہر ان کہے جملے میں چھپی، اس کے الفاظ کے درمیان سرگوشی کی مانند۔ اس نے اسے ہزار بار تحریر میں ڈھالا، مگر وہ ہمیشہ ایک نامکمل خیال بنی رہی، ایک ایسا عکس جو ہر کہانی کے حاشیے میں بھٹکتا رہا۔
وہ اس کے نثر میں درد بن کر جیتی رہی، اس کی شاعری میں خوشبو کی طرح بسی رہی، ایک ایسی کہانی کا آغاز جس کا اختتام وہ کبھی لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس کے الفاظ کی روح تھی، مگر کبھی مکمل نہ ہو سکی۔۔ یہی تو ہر لکھاری اور اس کے سب سے ضدی خیال کا مقدر ہے۔
لیکن وہ اس دن کا جشن کیسے مناتا جب ادب خود منڈی میں بکنے والی جنس بن چکا تھا؟ جب اس کی قیمت سرمایہ دارانہ غلاظت طے کرتی تھی، جب نوآبادیاتی سائے اب بھی اس کی زبان پر پہرہ دیتے تھے، جب جاگیردار اس کے قلم کے عوض اپنی مدح سرائی کے تقاضے کرتے تھے؟ لکھاری تاجر بن چکے تھے، ان کی بغاوتیں اب طاقتوروں کی بھوک کے مطابق تراشی جاتی تھیں۔
پھر بھی کچھ لوگ تھے جو جھکنے سے انکاری تھے۔ جیسےوہ تھی۔۔ ایک ایسی ہستی جو نہ منظوری کے لیے لکھتی تھی، نہ ہی ان کمزور انا والوں کے لیے جو حکمران تھے۔
اس کے الفاظ ایک زخم تھے، ایک آئینہ، ایک فیصلہ۔ جب باقی سب سرِ تسلیم خم کرکے انعامات سمیٹ رہے تھے، ھما ان بھلا دیے گئے لوگوں میں شامل تھی جو سچائی کو تاریخ کی ہڈیوں پر تراش رہے تھے۔
شاید کسی اور دنیا میں، وہ خود بھی ایسا لکھاری ہوتا۔
لیکن اسے حقیقت معلوم تھی۔ وہ "ھما" نہیں تھا۔ وہ تو وہ لکھاری بھی نہیں رہا تھا جو کبھی خود کو سمجھتا تھا۔ وہ محض ایک اور گمشدہ آواز تھا، اس ادب کے کھنڈرات میں جو اب کسی کے لیے معنی نہیں رکھتا تھا۔
سو، اس دن، جسے جشن کا دن کہا جاتا تھا، اس نے کچھ نہیں لکھا۔
بس، اس نے خالی صفحہ تہہ کیا، اسے ایک لفافے میں رکھا اور پتہ لکھا۔۔ سیدہ ھما، وہ کہانی جو کبھی لکھی ہی نہ گئی۔