پرانے وقتوں کی بات ہے ایک بندہ کسی گاوں کے پاس سے گزر رہا تھا۔ کھانے کا وقت ہوا، ہوٹل سرائے کوئی نہیں تھا آس پاس اور اس کے پاس خشک زاد راہ بھی تھا۔ اس نے سوچا کہ گاوں میں کسی گھر سے روٹی پکوا لیتا ہوں۔
ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔ اندر سے ایک رعب دار اماں جی باہر آئیں۔ اس نے اپنی ضرورت بیان کی۔ اماں جی نے اس کو شفقت سے اندر بلایا۔ اپنے پاس بٹھایا، پانی پلایا اور اپنی بہو کو بلا کہ اس شخص کا آٹا اس کے حوالے کیا۔ اور آٹا گوندھ کے روٹی بنانے کا حکم جاری کیا۔ بہو آٹا گوندھنے لگ گئی۔
وہ شخص اماں جی کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوگیا۔ باتوں کے دوران اس کی نظر ایک سائیڈ پہ بنے کمرے کے اندر گئی جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی تمام عقل مندی کو اکٹھا کر سوال کیا " اماں جی اگر یہ بھینس اندر مر گئی تو اسے باہر کیسے نکالیں گے؟"۔۔ اماں جی نے میٹھی سی سرزنش کرتے ہوئے کہا۔۔ " بیٹا توبہ توبہ کر کیسی باتیں کرتے ہو"
چند لمحے تک وہ چپ رہا لیکن بے وقوف انسان کو کہاں سکون۔ اماں جی کی بہو جو آٹا گوندھ رہی تھی اس کو دیکھ کے بولا " اماں جی اگر آپ کا بیٹا مر گیا تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دینا "
اماں جی نے اپنی بہو کو بلایا، گوندھا ہوا آٹا اس کے ہاتھ پہ رکھا اور کہا چل بیٹا نکل یہاں سے۔ اب آٹا اس کے ہاتھ پہ اور وہ گلی میں چلا جا رہا ہے۔ کسی نے پوچھا "بھائی یہ کیا ہے؟"
اس نے شرمندگی سے کہا " میری خوش گفتاری"
" اگر زلزلہ آ گیا تو یہ میٹرو گر جائے گی "۔۔
فرق صرف یہ ہے کہ کئی آٹے ہاتھ میں اٹھا کر بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی خوش گفتاری ان کو کہاں لے جا رہی ہے۔