قدیم یونان میں انسانوں کے پاس علم کم تھا ذرائع کم تھے، مگر وہ انسان تھے پرنٹر نہیں تھے، وہ دنیا کو جس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے تھے پیش کر دیتے تھے، وہ اپنی قوتِ ارادی سے علم کے سمندر میں غوطہ زن تھے، مگر یہ کیا ہے کہ آج انسان کی اکثریت محض ایک پرنٹر کی مانند ہے، آج کا انسان دوسروں کی بنائی گئ تصویر کو بغیر جائزہ لیئے آگے منتقل کر دیتا ہے، آج علم کے کئ ذرائع موجود ہیں مگر علم کا مآخذ یعنی عقل پر دوسروں کے نظریات کا بوجھ ہے۔
قوتِ ارادی جس قوم سے رخصت ہو جائے وہاں نئے علوم جنم نہیں لیتے وہاں علم و فن کے سمندر نہیں بہتے، جہاں علم میں دلچسپی نہ لی جاتی ہو، اُس معاشرے کو یہ بات کیسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ اختلاف کس طرح سے کیا جاتا ہے، یہاں تو اب اختلاف پر دلائل تو نظر نہیں آتے مگر سفید صفحات قلم کی سیاہی سے کالے ضرور نظر آتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے بااثر افراد چند گنے چنے ہیں جن کی عقل گرد آلود نہیں ہے، جو خود تفکر، تدبر کرتے ہیں جن کا ذہن آج کو محسوس کرتا ہے اور مستقبل کے بارے بتاتا ہے، ہمیں اختلاف کا مکمل حق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس طرح کے انسان اب محض چند کے سوا نظر ہی نہیں آتے، انسان کی اکثریت ہمارے معاشرے میں تقلیدی ہو چکی ہے دوسروں کی آراء کے زیر اثر ہے۔
ایسے ہی جیسے ایک پرنٹر ہوتا ہے، دماغ میں دوسروں کی آراء اسی طرح آگے بھیج رہے ہیں، اگر انسان کا منصب یہی تھا کہ چند لوگوں کے فیصلوں کو قبول کر کے بس ان کی اشاعت میں لگ جانا ہے اور ان ہی آراء کو دنیا کا آخری سچ تسلیم کرنا تھا تو پھر باقی انسانوں کی جگہ اس دنیا میں پرنٹرز اور فوٹو کاپی والی مشین ہی کافی تھی انسان کا ہونا محض تکلف سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس طرح زندگی بے مقصد اور لاء یعنی ہے۔
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں۔ اقبال
ہمیں خود پر توجہ دینی چاہیے خود سے ملاقات ضروری ہے اپنے ہونے کا احساس خود کو دلانا چاہیے، ہم اگر ممتاز ہیں باقی جانداروں سے تو عقل و شعور کی بنیاد پر ہیں اور اگر اس کو استعمال ہی نہ کیا تو پھر وہ کچھ ہو رہا ہے اِس وقت جو انسان باقی جانداروں (جانوروں) کے ساتھ کرتا ہے۔ بس ایک حکم دیتا ہے انسان اور بغیر سوال کیئے جانور اُٹھ کھڑا ہوتا انھی راستوں پر چلتا ہے جن راستوں پر انسان چاہتا ہے مجبور اور بے بس ہو کر۔
اہل علم لوگوں کی باتیں پڑھیں، سنیں، سمجھیں اور دیکھیں کہ ان کی باتیں ہمارے آج پر کتنی اہمیت رکھتی ہیں؟ ماضی کے لوگوں نے اپنے وقت اور حالات پر اپنے نظریات قائم کیئے تھے، ہر خیال ہر آنے والی سوچ ہمیشہ اسی وقت اور زمانے کے حالات سے پیدا ہوتی ہے، کیا ماضی کے لوگوں کی باتیں اور آراء عین اسی طرح بغیر ترمیم کیئے ہمارے حالات بدل سکتی ہیں؟
ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے ان کے نظریات کا جائزہ لینا چاہیے خود پر ان نظریات کو حاوی کر کے دوسروں میں بھی وہیں باتیں منتقل کر کے ہم کوئی نئی دریافت کے مؤجب ہرگز نہیں ہو سکتے ہیں۔ خاص کر نوجوان جو اس وقت پرنٹر کی صورت اختیار کر چکے ہیں ان کو اپنے آپ سے ملنے کی ضرورت ہے، خود کے تصورات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ان کو چاہیے کہ وہ غور و فکر کریں تاکہ زمانے کے مددگار ثابت ہوں، نئی تحقیقات اور دریافتوں، فلسفوں کے مآخذ بنیں۔
اپنی میں کو پہچانیں اپنی اہمیت کا احساس سب سے پہلے خود کو دلائیں، علم میں تفکر کریں، تدبر کریں اور اپنے نظریات جو آج اور مستقبل پر دلالت کرتے ہوں جو تمام انسانوں کی رہنمائی کرتے ہوں، جن نظریات کی وجہ سے دنیا ان کو یاد رکھے، یہ سب تب ممکن ہے جب انسان آج کا جائزہ لے گا اور خود کو اپنے وجود کا احساس دلائے گا، ماضی کو پڑھیں، سیکھیں، سمجھیں مگر ماضی کو خود پر مسلط مت کریں ماضی ہمیشہ ماضی کی کتب تک ہی محدود رکھیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
علامہ اقبالؒ