میں اس معاشرے کا وہ چہرا ہوں، جس کو وہ ایک دوسرے سے چھپاتے پھرتے ہیں، ندامت اور شرمندگی ہوئی مجھے اپنے آپ پر جب میں نے دیکھا۔ اس دنیا میں رہنے کے لیے لوگوں نے اپنی پسند کا خوبصورت فریبی لباس جسم پر زیبِ تن کر رکھا ہے، اور میں اپنی کمزور اصلیت لے کر ان لوگوں کے بیچ آگیا ہوں۔ میں در بدر بھٹکتا رہا اس دنیا میں رہنے والی مخلوق نوِع انسان کو سمجھتا رہا کہ یہ ایسا کیوں ہے آخر؟
یہ جس چیز کو غلط کہتا جس چیز پر آپس میں ایک دوسرے کو دھتکارتے ہیں۔ اسی ہی چیز کو خود چھُپ کر عالم تنہائی میں سر انجام دیتے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ انسان آپس میں ایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھاتے ہیں اور اس دنیا کے انسانوں نے مختلف نام و القابات بھی ایک دوسرے کو دے رکھے ہیں، جیسے کہ فلاں جھوٹا ہے فلاں فریبی ہے، فلاں طوائف ہے! حالانکہ یہ سب تمام چیزوں کو خود بھی سر انجام دیتے رہتے ہیں!
انھونے ایسا خدا بھی بنا رکھا، جس کے واسطے دے کر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کو جب سب سے بڑا فریب دینا ہو تو اس کے لیے بیچ میں خدا کو لانا لازمی ہوتا اِن کے لیے پھر اِن میں سب سے معتبر فریب کے لباس کا نام " پارسائی" ہے یہ لباس باقیوں سے منفرد ہے۔ جو انسان اس لباس کو اوڑھ لے وہ جو کام کرے اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، یعنی عام انسان کو بدکار کہا جاتا ہے۔
عورت کو طوائف کہا جاتا ہے، مگر پارسا ایسا کچھ کرے تو شیطان نامی چیز سے جوڑ کر اپنا دفاع کرتا ہے اور باقی تمام انسان بھی اس کی بات تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہاں دوہرا معیار ہے۔ دو دو چہرے ہیں، ایک وہ جو انسان ایک دوسرے کے سامنے رکھ کر پیش آتے ہیں اور دوسرا وہ چہرا جو اصل حقیقت ہے۔ ان سب انسانوں میں ایک بات عام ہے یہ سب انسان اپنے اصل چہرے کو کسی کے سامنے پیش نہیں کرتے اور یہ بات سب انسان جانتے ہیں۔
یہاں سب سے زیادہ وہ چیزیں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ جن کو یہ سب انسان غلط کہتے ہیں۔ نجانے ان کو غلط لفظ ہی کیوں ملا حالانکہ اس کی جگہ "سب سے اچھا" لفظ ہونا چاہیے تھا، یہ عجب دنیا ہے۔ عجب رنگینیاں ہیں، عجب کہانیاں ہیں، عجب دلفریب منظر ہیں، ہر انسان دوسرے سے نفرت کرتا ہے بے وجہ ہی مگر سمجھدار بہت ہے بتاتا نہیں ہے۔
اس دنیا کی اور یہاں کے بسنے والوں کی سب سے حیرت میں ڈال دینے والی بات یہ ہے کہ " یہ لوگ بظاہر جس جس چیز پر انگلی اٹھاتے ہیں برا کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں نا زیبا سمجھتے ہیں، ہر وہ کام اپنے عروج پر ہر انسان ہی اپنی استطاعت کے مطابق کر رہا ہوتا ہے، یعنی اس دنیا میں تمام تر لوگ تضادات کا مجموعہ ہیں، ہر انسان نے پروفیشنلی جھوٹ اور فریب کا لباس زیبِ تن کر رکھا ہے۔
اس لباس کے بغیر، اس سیارے زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں ہے یہ پہننا لازمی ہے اور کسی نے نہیں پہنا ہوا تو وہ بہت ہی جلد اس دنیا سے واپس بھیج دیا جاتا ہے، بڑی بے دردی سے ظلم و ستم سے میں ان معذور و کمزوروں میں سے ہوں، جن سے انتہائی بڑی غلطی سرزد ہوئی کہ وہ اپنے اصل چہرے سمیت اصل لباس میں اس دنیا میں اس دنیا کے لوگوں کے بیچ آگئے، شائد ہوسکتا ہے۔
لباس ہی ہماری باری ختم ہوچکا ہو یا ہم ہی نہ اٹھا پائے ہوں، جو بھی وجہ بنی مگر اب اس دردناک حقیقت کو سمجھتے سمجھتے کمر ٹوٹ چکی ہے، فریب کے لقمے لے لے کر جھوٹ کے گھونٹ پی پی کر پارساؤں کی خوف و ہراس پر مشتمل باتیں سن سن کر (جن پر وہ خود بھی عمل پیرا نہیں ہیں ) ہم تھک ہار چکے ہیں، ہم نئ کائنات کی دریافت کی جستجو میں ہیں۔
جہاں انسان نامی مخلوق سے چھٹکارا مل سکے جہاں کوئی ایسی مخلوق بستی ہو، جو ان لباسوں سے آزاد اپنے اصل لباس میں رہتی ہو، جہاں جو کہا جاتا ہو وہیں عمل میں بھی لایا جاتا ہو، جہاں خدا کے نام پر جھوٹ فریب نہ دیئے جاتے ہوں بلکہ اس عظیم خدا کی شان کے جیسے خود بھی شفاف ہوں، صاف ہوں، اصل ہوں دوغلے نہیں بلکہ ایک صورت رکھتے ہوں قول وہی ہو جو فعل ہو خود کو لباس پہنا کر معاشرے میں خود بلند مرتبہ پر دیکھانے کے قائل نہ ہوں۔