انسان اشرف مخلوق ہے اس کو یہ مقام اس کی عقل کی بدولت ملا ہے اگر اس کا استعمال کرے تو چاند پر قدم رکھ دیتا ہے مریخ پر تحقیق جاری کر دیتا ہے انسانی ڈھانچوں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے بہتر سے بہترین بنا دیتا ہے نیز کے عقل کے استعمال سے ہر سوچی جانے والی چیز کو تعمیر کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر عقل کا استعمال نہ کیا جائے تو انسان اشرف ہونے کا حق کھو دیتا ہے جانوروں سے بھی نیچے گِر جاتا ہے عقل کے استعمال کے بنا انسان ایسا ہے جیسے کھائی میں جاتا پست راستہ یعنی انسان پستی کی اس انتہاء تک چلا جاتا ہے جہاں جانوروں کی بھی پہنچ ممکن نہیں ہوتی۔
ہر شخص عقل کا بھرپور استعمال نہیں کر سکتا مگر یہ بھی سچ ہے کہ پابندی کسی شخص پر نہیں لگائی گئی جو چاہے استعمال کرے۔ دنیا میں تقریباً چند فیصد لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ شائد پانچ فیصد ہونگے کل آبادی کا جو عقل کو بھرپور استعمال کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ تنقیدی ذہن کو جگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تنقیدی ذہن کے بنا انسان ترقی نہیں کر سکتا اِس کے بنا وہ پرانے ہی دیئے گئے، بتائے گئے راستوں پر چلتا رہتا ہے۔ نیا راستہ بنانے کے لیے نئے سوال اور پھر اس کے جواب کا ہونا لازم ہے جو نئے راستوں کو روح بخشے۔
یہ عظیم لوگ کون ہوتے ہیں بہت بار یہ اصطلاح یہ الفاظ سنے ہیں کیا یہ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں؟ کیا کوئی حادثات ان کو عظیم بناتے ہیں؟ آخر یہ عظمت کہاں سے حاصل ہوتی ہے ان کو؟ اس کا جواب ہے " عقل" یہ عظمت عقل کی چادر تلے چھپی ہوتی ہے انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اس چادر کو ہٹا کر اس عقل کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے کہ تنقیدی ذہن کا ہونا ضروری ہے، ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے، پیاس کے ہونے کے ساتھ ساتھ پانی کا ادراک ضروری ہے پیاس کے محض علم سے پیاس نہیں بجھتی تنقیدی ذہن سے مراد دور حاضر کے علوم پر تنقید کے ساتھ ساتھ جوابی بیانیہ دینا یعنی دنیا کو بتانا کے ضرورت اس شے کی ہے جبکہ موجودہ علم اس شے سے خالی ہے۔
کبھی غور کیا ہے ان فلسفیوں پر جو نئے فلسفے بخش گئے ہیں، جو نئے راستے دکھا گئے ہیں، جو روشنیوں کے مؤجب بنے ہیں۔ ان کی ضرورت کب پیش آئی اور دینے والے کون تھے محض ایک شخص یا چند شخص مگر عمل پیرا کتنی انسانیت ہے؟ بس یہ وہ چند فیصد لوگ ہیں جو عقل کو استعمال کرتے ہیں مسائل کو دیکھتے ہیں گہری نظر سے ادراک کرتے ہیں ان مسائل پر تنقیدی نظر دوڑاتے ہیں اور جوابی بیانیہ پیش کرتے ہیں یہ جوابی بیانیہ ہی پھر انسانوں کی ضرورت بن جاتا ہے اور دنیا کے تمام انسان ان چند لوگوں کی کاوشوں پر زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔
ہم اگر خود پر توجہ دیں اور اپنے سماج کو دیکھیں تو کہیں کوئی اس طرح کا ذہن نظر نہیں آتا دور دور تک اور اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو وہ تنقید برائے تنقید ہوتی ہے صفحات کو سیاہ کرنا ہوتا ہے علمی تحقیقی تنقید نہیں ہوتی جو اپنے ساتھ ایک واضح جوابی بیانیہ لے کر جو انسانوں کی ضرورت بنے جو راستہ دکھائے جو اندھیرے میں روشنی پیدا کرے۔
ہم اور ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہم پر فرض و قرض دونوں ہے کہ عقلی طور پر اپنی پستی و زوال کا تحقیقی جائزہ لیں اور ان محرکات کا ادراک کریں اور جوابی بیانیہ لے کر آئیں جو ہمارے آنے والی نسل کے لیے نیا راستہ بنے جس سے یہ ہجوم ایک قوم و ملت بن کر ابھرے جس سے جہالت کے یہ سائے دور ہوں۔ جس سے غریب غرباء امیر سب برابر ہوں حق و انصاف کا بول بالا ہو۔
خود پر توجہ دیں فکرِ نو کریں اپنے نظریات کی تجدید کریں مل کر جستجو کریں تاکہ کل ہمارا آج جیسا تاریک نہ ہو بلکہ سورج کی طرح روشن ہو اور آنے والوں کے لیے باعث فخر ہو۔ ہمارا روشن کل عقل اور اس کے استعمال پر منحصر ہے اس کو ترجیحات میں سب سے اولین ترجیح پر رکھیں یہں ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے یہ واحد آلہ ہے جو ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے روشن مستقبل کی جانب راستوں کی تکمیل کرے گا۔