ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے سترہ سو قبل مسیح کے ایک عظیم بادشاہ اور اس کی سلطنت جس کو پڑھ کر سیکھنے کی ضرورت آج ہزاروں سال بعد لوگوں کو ہے۔ ہمورابی بابل کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت تھا۔ میسوپوٹیمیا کی قدیم تہذیب کا بانی تھا۔ وہ بابلی خاندان کا چھٹا بادشاہ تھا، جس نے تقریباً 1792 قبل مسیح سے 1750 قبل مسیح تک حکومت کی۔ حمورابی کو اس کی کامیابیوں کے لیے بڑے پیمانے پر یاد کیا جاتا ہے۔
قانون اور حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس کی فوجی مہمات اور تعمیراتی منصوبوں پر گہری گرفت حاصل تھی۔ اپنے دور حکومت کے دوران، حمورابی نے کامیاب فوجی مہمات کے ذریعے بابلی سلطنت کو وسعت دی، جس میں کئ شہروں کو فتح کرنے کی مہم بھی شامل تھی، جو کئی دہائیوں سے بابل کے پہلو میں نئ تہذیب دینے میں کوشاں رہا۔ اس نے عوامی کاموں کے بہت سے منصوبوں کی بھی نگرانی کی، جس میں آبپاشی کا نظام شامل ہے۔
تاہم، ہمورابی اپنے قانونی ضابطے کے لیے آج مشہور ہے، جو کہ ایک تحریری قانونی نظام کی قدیم ترین مثالوں میں سے ایک ہے۔ ضابطہ حمورابی 282 قوانین پر مشتمل تھا۔ جس کو ارکیالوجسٹ نے کچھ عرصہ پہلے دریافت کیا۔ جن کا مقصد بابل کے لوگوں کے طرز عمل کو منظم کرنا اور انصاف کی بنیاد فراہم کرنا تھا۔ قوانین میں بہت سارے موضوعات شامل ہیں، بشمول جائیداد کے حقوق، خاندانی قانون، مزدوری کے طریقے، اور فوجداری انصاف۔
ہمورابی قوانین کو بڑے حیران کن طریقے کے ساتھ پوری سلطنت میں عوامی مقامات پر آویزاں کیا گیا تھا، تاکہ ہر کوئی اسے دیکھ سکے اور اس سے سیکھ سکے اور عمل یقینی بنائے۔ ضابطہ حمورابی قانون کی تاریخ میں ایک اہم کامیابی اور انقلاب تھا، اس نے پوری دنیا کے قانونی نظاموں پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ اس وقت کے بابلی معاشرے کی اقدار اور عقائد کی عکاسی ہیں۔ سترہ سو قبل مسیح میں حمورابی بادشاہ وہ اصول و قوانین دینے میں بلکہ عمل کروانے میں کامیاب رہا۔
جس کی بدولت بابل نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اندرونی لا قانونیت کو بھی جڑ سے ختم کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ حمورابی کہا کرتا تھا، میں خدا کی طرف سے تم پر بطور نعمت بھیجا گیا ہوں تاکہ تم لوگوں میں امن سکون نعمتوں کی بہاریں نچھاور کر سکوں۔ اس نے انصاف کے لیے ایک فریم ورک فراہم کیا تھا۔ جو عقل اور انصاف پر مبنی تھا۔ ایک حکمران، قانون ساز، اور معمار کے طور پر حمورابی کی میراث ہزاروں سالوں سے برقرار ہے۔
اور تہذیب کی ترقی میں اس کی شراکتیں آج بھی منائی جاتی ہیں۔ ہم اپنے آج کو دیکھیں تو لگتا ہے، شائد ہم حمورابی کے زمانے سے پیچھے پستی و جہالت میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لا قانونیت سے انگنت لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے، تاریخ سے سیکھنے والے ہی مستقبل پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلسل غلطیوں کو دھرانے والی اقوام مٹ جاتی ہیں، تاریخ میں نا تک نہیں رہتا اور اگر رہے تو عبرت کے لیے ہوتا ہے۔