ہمارے معاشرے میں مغرب سے نفرت دائمی ہے اور اس کی وجہ محرومی ہے، عام فہم لوگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل کی جا رہی ہے، آپ اس معاشرے میں پیدا ہو گئے ہیں بس یہں ایک وجہ ہے کہ آپ مغربی ممالک سے نفرت کریں اگر آپ یہاں پیدا نہ ہوتے تو معاملہ مختلف ہوتا۔ علم و تحقیق میں وہ آپ سے آگے ہیں یہ چیز قبول نہ کرنے کی وجہ سے محرومی جنم لے چکی ہے۔
کوئی عقلی، علمی دلیل نہیں ہے کہ نفرت کیوں کی جائے محض محرومی کے جذبات ہیں وگرنہ وہ لوگ بھی انسان ہیں مگر ہمارا perspective ہی بہت چھوٹا ہے سوائے نفرت کے نظر ہی کچھ نہیں آتا ہے۔ مختلف اصطلاحات سے عامی لوگوں میں زہر گھولا جاتا ہے جیسے لفظ جدیدیت کا استعمال۔ حالانکہ اس لفظ کا تصور اس کی حقیقت کیا ہے؟ جدیدیت خود اپنی تعریف ہر لمحہ بدل رہا ہے مگر ہمارے ہاں اس کے الگ ہی معنی ہیں۔
آپ کو یہاں کوئی ملازمت نہیں ملتی ڈگریوں کے باوجود بھی مگر آپ باہر مغربی ملک سے اعلیٰ تعلیم بہترین ادارے میں حاصل کر رہے ہیں تو آپ کا ملک آپ سے رابطہ کرتا ہے کہ ڈگری کے بعد وطن واپس آ جائیں آپ کی ضرورت ہے، یعنی وہ شخص تب ہی ضرورت بنا جب مغرب نے اپنے اعلیٰ ادارے میں اس کو جگہ دی۔ نجانے کب ہم اس دنیا کو یہاں کے لوگوں کو قبول کریں گے اور wide perspective سے دیکھنے کی جسارت کرینگے۔
دو رخی رویوں کی بات جو سیگمنڈ فرائیڈ نے کہی تھی ہمارے معاشرے پر صادق آتی ہے ایک طرف ہمارے سیاستدان مغرب پر الزام تراشیاں کر کے عوام سے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور دوسری جانب یہں دانشور حضرات مغربی سازشوں کے بارے عجب کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں اور کچھ ہی دیر پہلے اپنے تعارف میں یہ بتا چکے ہوتے ہیں کہ امریکہ، یورپ کی فلاں ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے جہاں اعلیٰ اذہان کا داخلہ ہوتا ہے۔
یہی کچھ آپ سیاستدانوں کے تعلیمی کیریئر میں دیکھیں گے۔ یہ دو رخی رویوں کی روایت ہمارے معاشرے میں دراز ہے۔ عوام کو اپنے نیچے رکھ کر ہمیشہ نوچنے اور غلام رکھنے کے لیے ان کو نفرت گھول گھول کر پلائی جاتی ہے تاکہ ان سے ذہنی، فکری صلاحیتوں کو ختم کر کے محض نفرت، عداوت بھری جائے تاکہ کل کو ہم سے سوال کرنے کی جسارت پیدا نہ کریں۔ عام فہم لوگوں میں خوف محرومی اور عداوت کے جذبات کے پیچھے کیا ہے کبھی پوچھیں تو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ بس پوری دنیا ہماری ہی دشمن ہے۔
نجانے کیسے کیسے من گھڑت قصوں، کہانیوں سے عقل بھر دی گئی ہے کہ اپنی پستی گراوٹ ہی بلند نظر آتی ہے باقی جہاں صرف برائیوں سے بھرا ہے، خطرناک ہے، ان کی وجہ سے سارے مسائل رونما ہوتے ہیں۔ جب ذہن اس سطح پر آ چکا ہو تو پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ میں کہوں گا اپنے گریباں میں جھانکیں اور آس پاس دیکھیں ایسا ہوتا ہے کوئی ایک چیز بھی اپنی اصل حقیقت میں حاصل کرنا خواب بن چکا ہے۔
مسائل وہاں بھی ہیں مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں سو فیصد درست کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم وہاں کے مسائل کو اپنے لیے سازشیں تصور کرنے لگیں۔ اپنے مسائل جو سر سے بلند ہو چکے ہیں ان کے حل کی فکر نہیں ہے مگر دوسروں کی ہر آہٹ سنائی دے رہی ہے۔
کروٹ کروٹ ان پر تبصرے ہیں اپنے زوال و پستی پر کوئی بات کوئی حل نہیں ہے۔ بلکہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والا بھی یہ کہہ رہا ہوتا ہے امریکی بہت بڑے دھوکہ باز ہیں، قبضہ مافیا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فلاں ملک ہم پر مسلط ہونا چاہتا ہے۔ یہ محرومیاں ہمارے خون میں دوڑ رہی ہیں حقائق دھندلا چکے ہیں، فریب نمایاں ہے، من گھڑت قصوں پر واہ وصول ہو رہی ہے۔