1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. برداشت و درگزر کی روایات کیطرف لوٹنا ہوگا مگر

برداشت و درگزر کی روایات کیطرف لوٹنا ہوگا مگر

کھلے دل کے ساتھ لوگوں کی خطائوں کو معاف کردینا صوفیاء کا وصف ہے۔ عام انسان ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے دلوں میں کشادگی پیدا کرنا شروع ہوجائیں تو معاشرے میں سکون کی کیفیات مستحکم ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے مگر چند خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں قوت واختیار والے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزرکردینے کو ترجیح دیں تو بدخصلت سازشیوں کو شہ مل جاتی ہیں۔ انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ انگریزی محاورے والا قتل کرنے کے بعد بھی اپنی اکڑفوں سمیت دندناتے رہیں گے۔

گزشتہ چند برسوں سے ریٹنگز کے حصول کے لئے وحشی ہوئے پاکستانی میڈیا میں ایک انتہائی خوفناک اور قابلِ نفریں رحجان بہت شدومد سے جاری ہے۔ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے معاشرے کے چند نمایاں افراد کو محض ذاتی جلن یا شکایتوں کی بنیاد پر غدار اور دین دشمن وغیرہ ٹھہرادیا جاتا ہے۔ جن لوگوں پر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں ان کے پاس اپنے دفاع کے لئے اس ملک میں کوئی مؤثر قانونی نظام موجود نہیں ہے۔ اس نظام کی عدم موجودگی میں ریاست وعدالت سے بالابالا نفرت انگیز الزامات کا شکار ہوئے افراد اپنی جان بچانے کے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اپنے عزیزوں اور دوستوں کے روبروشرمندگی سے سرجھائے رہتے ہیں۔

خود کو صحافتی اقدار کا محافظ کہلاتے چند نیک دل افراد کا یہ فرض تھا کہ وہ یکسو ہوکر اس رحجان کی مزاحمت کرتے۔رزق کمانے کی مجبوریوں نے مگر ایسا ہونے نہیں دیا۔لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری صرف ریاست کے سر ڈال دی گئی ہے۔ اس ریاست کے ادارے مگر کمزور ہیں۔تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم بھی اپنے عہدے کی عزت ووقار کا تحفظ نہیں کر پائے۔

1857ء کے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا تھا۔وہ بے چارہ گھبراہٹ میں صوفیاء کی درگاہوں میں چند دنوں کے لئے گوشہ نشین ہوجاتا تھا یا دُکھی دل کے ساتھ اپنی بے بسی کو شاعری کے ذریعے بیان کرنے کو مجبور۔ نواز شریف صاحب شاید خود کو تسلی دینے کے لئے ہی ان دنوں چند میگاپراجیکٹس کے افتتاحی فیتے کاٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس قابل ہی نہیں رہے کہ قانون کے مؤثر استعمال کے ذریعے عام شہریوں کو اس دہشت ووحشت سے بچاسکیں جو جنگلوں میں بھٹکتے کمزور جانوروں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔

ایٹمی قوت کی مالک پاکستانی فوج کے سربراہ کے پاس مگر انتہائی مؤثرقوت واختیار موجود ہوتے ہیں۔ان کا عہدہ انہیں سیاسی سمجھوتوں کی ضرورتوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ میں انتہائی دیانت داری کے ساتھ مؤدبانہ اصرار کرتا ہوں کہ جنرل باجوہ کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان لوگوں کو سراغ لگانا چاہیے تھا جنہوں نے ان کی تعیناتی کو ناممکن بنانے کے لئے ان کے عقیدے اور ایمان کے بارے میںایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے گمراہ کن سوالات اٹھائے تھے۔ ایسے لوگوں کی نشان دہی کے بعد ان پر مناسب سزائوں کا اطلاق ہوتا نظر آنا بھی ضروری تھا۔

میں گزشتہ چند برسوں سے رپورٹنگ کے دھندے سے تقریباََ ریٹائر ہوچکا ہوں۔اس دھندے میں کئی برس کھپانے کی وجہ سے چند باخبر لوگوں کے ساتھ ذاتی اور سماجی مراسم مگر اب بھی کسی نہ کسی صورت برقرار ہیں۔ان میں سے چند افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق آرمی چیف کو علم ہوچکا ہے کہ ان کے عقیدے اور ایمان پر سوالات اٹھانے والی سازش کہاں اور کیسے تیار ہوئی تھی۔اسے کن لوگوں کے ذریعے پھیلایا گیا۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی مگر اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے درگزرسے کام لینا بہتر سمجھا۔کھلے دل سے اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کو بھلادیا۔مبینہ ذمہ داری کو مشفقانہ انداز میں معاف کردیا۔

کسی بھی صحت مند معاشرے میں بے پناہ قوت واختیار کے مالک شخصیت کی جانب سے اپنایا ایسا رویہ صلۂ رحمی کی انسان دوست روایت کو مستحکم کرنے کا باعث ہوا کرتا ہے۔ہمارے معاشرے پر نفرت کے جذبات مگر پوری وحشت کے ساتھ حاوی ہوچکے ہیں۔بدطینت لوگوں کو بلکہ پیغام یہ پہنچا ہے کہ اگر آرمی چیف جیسا طاقت ور شخص بھی اپنے عقیدے اور ایمان کے بارے میں گمراہ کن سرگوشیوں کے ذریعے سوالات اٹھانے والوں کا کچھ بگاڑنہیں پایا تو ان کے چند نمایاں شکار کس کھیت کی مولی ہیں۔جب چاہے محض ذاتی حسد یا شکایات کی بنیاد پر ان کے بارے میں کچھ بھی کہہ دو اور انگریز محاورے والے Get Away with Murder والا لطف اٹھائو۔غداری اور دین دشمنی جیسے سنگین الزامات کا شکار ہوئے چند بے بس افراد سے بھی میرا گلہ یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف چلی مہم کو تھوڑی جرأت وبہادری کے ساتھ کسی انجام تک نہیں پہنچاتے۔ غداری یا دین دشمنی کے الزامات لگ جانے کے بعد آپ کے لئے مزید کچھ کھونے کو شاید ہی کوئی شے باقی رہ جاتی ہے۔ زیادہ بہتر نہیں ہے کہ ایسا الزام لگ جانے کے بعد اس کا نشانہ بنا شخص پوری ضد کے ساتھ ریاستی اداروں کو مجبور کرے کہ وہ اسے باقاعدہ تفتیش وتحقیق کی چھلنی سے گزاریں۔ایک بھرپور تفتیشی عمل سے گزارنے کے بعد اگر غدار یا دین دشمن ٹھہرائے کسی شخص کے خلاف ٹھوس ثبوت مل جائیں تو اسے عدالتی نظام کے ذریعے کڑی سزائیں دلوانے کا بندوبست بھی ہونا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

ہم اس روایت کا آغاز نہ کر پائے تو یقین مانیے اس ملک میں ہر شخص اپنے مخالف کا جینا حرام کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو آمادہ ہونا شروع ہوجائے گا۔گلی گلی میں قتل ہوں گے۔ معاشرہ خوف ناک حد تک تقسیم ہوجائے گاجہاں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نظر آئیں گے۔شام پر اس وقت جو قیامت مسلط ہے اس کی اصل بنیادبھی وہ نفرت ہے جو عقیدوں اور مسلکوں کے نام پر پھیلائی گئی تھی۔اندھی نفرت کی بنیادپر پھیلائی اس خلفشار کی وجہ سے پانچ لاکھ شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر دنیا بھر میں دربدر ہوئے پناہ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ حلب جیسا تاریخی شہر جو شاندار روایات واقدارکا جیتا جاگتا نمونہ تھا،اب ایک ویرانہ ہے جس کا عظیم الشان ورثہ کھنڈروں میں تبدیل ہوچکا ہے۔

پاکستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ شاہ بھٹائی اور رحمن بابا جیسے شاعروں نے ہمارے دلوں میں سوزوگداز بھرا ہے۔داتا گنج بخشؒ جیسے صوفیاء نے محبتیں بانٹی ہیں جن کے لنگر آج بھی آباد ہیں۔ہمیں برداشت اور درگزر کی ان شاندار روایتوں کی طرف لوٹنا ضروری ہے۔ واپسی کے اس سفر کو یقینی بنانے کے لئے مگر لازمی ہے کے چند بدطینت سازشیوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے جو انتہائی سفاکی سے لوگوں کے عقائد پر سوالات اٹھاکر انہیں دہشت زدہ ہوئے خرگوشوں کی طرح بلوں میں چھپ جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔