ترکی کے اردوان نے ایک بار پھر براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے ہونے والا صدارتی انتخاب جیت لیا ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ اور اس کے اپنے ملک کے لئے یہ خیر کی خبر ہے یا نہیں۔ بطور صحافی پریشانی فقط یہ جان کرہورہی ہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال پر ہوئے ریفرنڈم اور امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ترکی کے صدارتی انتخاب کے بارے میں بھی عالمی میڈیا اور مبصرین متعلقہ ووٹروں کے جذبات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔
ترکی پر کئی برسوں سے نگاہ رکھنے والے کئی جید مبصرین کا اصرار تھا کہ اردوان کے لئے اس انتخاب کے پہلے مرحلے میں اپنے لئے 50 فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنا تقریباََ ناممکن ہے۔ اردوان اپنی حمایت میں یہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے Top-2 امیدواروں میں مقابلے کا ایک اور راﺅنڈہونا لازمی ہوجاتا اور اس صورت میں اردوان کی شکست کے امکانات بھی روشن ہونا شروع ہوجاتے۔
ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ترکی کو نام نہاد عالمی میڈیا میں چھپی خبروں کی بدولت سمجھنے کی کوشش کرنے والا میرا ذہن بھی انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں میں اس تجزیے سے متاثر ہوا۔ اردوان کی شکست کو ممکن دکھاتے ان تجزیوں نے مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی یاد بھی دلائی۔
اصولی طورپر1970 کے انتخابات ہوجانے کے بعد ان کی پیپلز پارٹی کی میعادِ حکومت کا آغاز 1973 کا آئین منظور ہوجانے کے بعد ہوا تھا۔ اس آئین کی روشنی میں نئے انتخابات 1978 میں ہونا تھے۔ بھٹو صاحب نے مگر ان سے ایک سال قبل انتخاب میں جانے کا اعلان کرکے اپنے مخالفین کو حیران کردیا۔ ہمارے مبصرین کی اکثریت کا خیال تھا کہ قبل از وقت ا نتخاب کی وجہ سے بھٹو صاحب کی مخالف قوتیں منتشر اور حواس باختہ رہیں گی۔ نئے انتخابات کا اعلان ہوجانے کے چند ہی روز بعد مگر ان کے تمام سیاسی مخالفین نوجماعتی پاکستان قومی اتحاد میں یکجا ہوگئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
اردوان کی میعادِ صدارت مکمل ہوجانے میں بھی ابھی سوا سال باقی تھا۔ بھٹو ہی کی طرح اردوان نے اپنی ملک کی اشرافیہ کے کئی طاقت ور گروہوں کو اپنا مخالف بنارکھا ہے۔ ترکی کی عسکری قیادت بھی موصوف کی بالادستی کو دل سے قبول نہیں کرپائی ہے۔ وہ جنہیں ترقی پسند یا لبرل کہا جاتا ہے شروع دن سے اردوان کی ”اسلام پرستی“ سے نالاں تھے۔ اردوان نے مگر فتح اللہ گولن جیسی مذہبی قوتوں کو بھی خود سے ناراض کردیا۔ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد سے ہزاروں سیاسی کارکن اور اخبار نویس دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت ہائی سکیورٹی جیلوں میں قید ہوئے ”خصوصی عدالتوں“ کا سامنا کررہے ہیں۔ ترکی کے تمام ٹیلی وژن نیٹ ورکس کو اردوان کے سیٹھ مداحوں نے خرید رکھا ہے۔ بڑے اخبارات کا بھی یہی عالم ہے۔ اردوان کے ”سلطانی رویے“ کی وجہ سے یہ امکانات روشن نظر آرہے تھے کہ دائیں اور بائیں بازو میں بٹے اس کے تمام مخالفین کسی نہ کسی صورت متحد ہوکر اسے شکست سے ودوچار کردیں گے۔ یہ شکست اس لئے بھی ضروری سمجھی جارہی تھی کیونکہ حال ہی میں بے پناہ آئینی ترامیم کے ذریعے اردوان نے ترکی کے صدارتی دفتر کو اپنے ملک کا سب سے طاقت ور ادارہ بنادیا ہے۔ اس کے پاس پارلیمان یا وزیراعظم کو کسی بھی جواز کی بنیاد پر برطرف کرنے کا اختیار بھی آگیا ہے۔ ترکی کی پارلیمان بلکہ نئے آئینی بندوبست کے تحت ایک بے بس وفروعی ادارہ نظر آناشروع ہوجائے گی۔
انتخابی مہم کے آخری ایام میں عالمی میڈیا اردوان مخالف خبروں سے بھرا نظر آنا شروع ہو گیا۔ بہت تفصیل سے کئی داستانیں منظرعام پر آئیں جو ترکی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرتیں۔ ان کہانیوں سے بھی اہم داستانیں ان سرمایہ داروں سے متعلق تھیں جنہیں اردوان نے اپنی سرپرستی میں کئی حوالوں سے ککھ سے لکھ پتی بنادیا ہے۔ ایسے کئی منصوبوں کا ذکر ہوا جو اقتصادی حوالوں سے احمقانہ نظر آتے ہیں۔ شوبازی والے میگاپراجیکٹس ہیں۔ مقصد جن کا کئی نوعیت کے ”تاج محل“ تعمیر کرنے کے نام پر اردوان کے قریبی سیٹھوں کو امیر سے امیر ترین بناناہے۔
انتخابی مہم کے آخری ایام میں اتاترک کی بنائی ریپبلکن پارٹی جس نے کئی برسوں تک ترکی پر حکومت کی ہے اور جو وہاں کی پرانی اشرافیہ اور عسکری سوچ کے قریب ترین سمجھی جاتی رہی ہے بہت شدت سے اپنا احیاءکرتی نظر آئی۔ اس کی جانب سے نامزد ہوئے صدارتی امیدوار نے انقرہ اور استنبول میں ”ملین مارچ“ کئے۔ بات مگر بن نہیں پائی ہے۔ اردوان نے صدارتی انتخاب کے پہلے ہی راﺅنڈ میں 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرلینے کے بعد اپنے مخالفین کو پٹخ دیا ہے۔ اردوان کے کئی مداحین کو بھی ایسی کامیابی کی توقع نہیں تھی۔
اردوان کی ”سلطانی“ کو تقویت پہنچانے والی مختلف النوع اورٹھوس وجوہات ہیں۔ مقامی اور عالمی صحافیوں کی بے پناہ اکثریت ان وجوہات کو معروضی انداز میں اب تک سمجھ نہیںپائی ہے۔ ترکی ہی نہیں دنیا بھر میں یہ رحجان بلکہ نمایاں ہوتا نظر آرہا ہے کہ میڈیا کے کئی Celebrity اینکر خواتین وحضرات اور اخبارات کے لئے لکھنے والے جید کالم نگار اپنے ہی ایجاد کردہ کسی Bubble میں بند ہوجاتے ہیں۔ وہ سیاست کو اپنے ذہن میں موجود تعصبات اورخیالات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اس Rage یا غم وغصے کو سمجھ نہیں پاتے جو Globalization کے مقابلے میں ”قومی“ حوالوں سے جنم لے رہا ہے۔
برطانیہ کا Brexit، امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی اور ترکی میں اردوان کی ”سلطانی“ درحقیقت اس Rageکی ترجمانی ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں مودی نے بھی ایسے ہی Rageسے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
ایک شے ہوتی ہے جسے Voter's Sentiment کہا جاتا ہے۔ سروے اور اعدادوشمار کے عادی ہوئے صحافی اور تجزیہ نگار اس Sentiment کا ادراک کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ ہم پاکستانی صحافیوں کو اس Sentiment کو سمجھنے کی فوری کوشش کرنا ہوگی کیونکہ ہمارے ہاں بھی ایک ماہ بعد عام انتخابات ہورہے ہیں۔ نظر بظاہر جولائی میں ہونے والے انتخابات کو Electables کا کھیل بنادیا گیا ہے۔ ان کی موثر تعداد عمران خان صاحب کی جماعت میں شامل ہوکر تحریک انصاف کی ”ہوا“ بناتی نظر آرہی ہے۔ ووٹر کا اپنا Sentiment کیا ہے اسے سمجھنے کی کم از کم مجھ ایسے صحافیوں کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اردوان کی طرح میگاپراجیکٹس کی وجہ سے مشہور ہوئے شہباز شریف مگر انتخابی اکھاڑے میں محترک ہوچکے ہیں۔ ”مجھے کیوں نکالا؟“ والے نوازشریف بیگم کلثوم نواز کی سنگین علالت کے باعث لندن میں رکے رہنے پر مجبور ہیں۔ ایسے ماحول میں انتخابی نتائج کیا برآمد ہوسکتے ہیںان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی دعویٰ کرنا کم از کم میرے لئے ممکن نہیں۔ اپنے ووٹر کے Sentiment کو میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں۔