1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. عمران خاں کی ”متلون مزاجی“

عمران خاں کی ”متلون مزاجی“

وہ شخص یا گروہ جس نے عمران خان صاحب کو ناصر کھوسہ کی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے طورپر نامزدگی کو واپس لینے پر مجبور کیا ہرگز تحریک انصاف کا خیرخواہ نہیں ہے۔ سوال اب کھوسہ صاحب کی دیانت یا مذکورہ عہدے کے لئے اہلیت کا نہیں رہا۔ خلقِ خدا کی اکثریت بلکہ خان صاحب کی ریاستی امور کے بارے میں فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کے بارے میں سوالات اٹھانے پر مجبور ہوگئی ہے۔

کھوسہ صاحب کا نام ”اچانک“ نہیں آیا تھا۔ آئینی تقاضوں کے مطابق تحریک انصاف نے ان کا نام بہت سوچ بچار کے بعد شہباز شریف کے روبرو رکھا۔ وہ مان گئے تو کھوسہ صاحب کی تعیناتی کا اعلان تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، میاں محمود الرشید، نے بذاتِ خود فخر بھرے اطمینان سے کیا۔ ناصر کھوسہ کے نام پر پنجاب حکومت اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق کو ”جمہوریت کا حسن“ بتاکرپیش کیا گیا۔ تحریک انصاف نے دودِنوں تک یہ نام چلانے اور اس پر اتفاق حاصل کرنے کی وجہ سے خوب داد بھی سمیٹی۔

بدھ کی سہ پہر تک لیکن تحریک انصاف نے ”اچانک“ دریافت کرلیا کہ ناصر کھوسہ تو ”نواز شریف کے آدمی ہیں“۔ پنجاب میں تعینات افسران ان کی نامزدگی پر بہت خوش ہیں۔ ان کی صفوں میں موجود ”احد چیموں“ کو قرار آگیا ہے۔ وہ لڈیاںڈال رہے ہیں۔ ناصر کھوسہ کا نام لہذا واپس لے لیا گیا۔ اب تقاضہ ہے کہ ان کی جگہ تحریک انصاف ہی کے نامزد کردہ کسی اور شخص کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔

میں آئین کا طالب علم ہوں، ماہرنہیں۔ میری ناقص رائے میں آئین کے آرٹیکل224-A کے تحت ناصر کھوسہ کی تعیناتی ضروری ہے کیونکہ ان کی نامزدگی کے لئے جس مشاورتی عمل کی ضرورت تھی وہ ہر حوالے سے مکمل ہوچکا ہے۔ اندھی نفرت اور عقیدت میں بٹی سیاست میں لیکن آئینی تقاضے ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔

ذاتی طورپر میں ناصر کھوسہ صاحب سے ہرگز آشنا نہیں۔ صرف ایک ملاقات غالباََ 2008 یا 2009 میں ہوئی تھی جب وہ بلوچستان کے چیف سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور میں نے اس صوبے کے حقائق جاننے کے لئے وہاں کے مختلف علاقوں کا ایک تفصیلی دورہ کیا تھا۔ اسلام آباد کے بیورو کریٹک حلقوں میں لیکن ان کی زیادہ ترتعریف ہی سنی۔ نواز حکومت کے بہت قریبی بیوروکریٹ ہوتے ہوئے بھی انہیں کلاسکی رویے والا ایک Typical افسر کہا جاتا ہے جو اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔

محض ان کی شہرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے خدشہ ہے کہ اگر کھوسہ صاحب کی نامزدگی آئینی اور قانونی اعتبار سے درست بھی ٹھہرا دی گئی تو وہ شاید یہ عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ وہ اگر رضا مند ہوبھی جائیں تو اصولی طورپر انہیں اس عہدے پر اب فائز نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف نے ان کی دیانت اور اہلیت پر سوال اٹھادیا ہے۔ ان کی موجودگی میں آئندہ انتخابات کے نتائج اگر تحریک انصاف کی منشاءکے مطابق برآمد نہ ہوئے تو ناصر کھوسہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا بہت آسان ہوجائے گا۔

شہباز شریف اس ضمن میں کیا سوچ رہے ہیں؟ اس کے بارے میں مجھے یہ کالم لکھتے وقت ہرگز کوئی علم نہیں تھا۔ سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ میری خواہش ہے کہ بجائے آئینی تقاضوں پر زور دینے کہ وہ کھلے دل سے تحریک انصاف ہی کے جانب سے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے آئے دوسرے نام پر فوراََ اتفاق کرلیں۔ معاملے کو عدالتی فیصلے تک نہ لے جائیں۔ اگر سیاست دان ہیں تو سیاسی فیصلے کریں۔

سیاسی فیصلے سے یاد آیا کہ سیاست دان کو اگر عوامی مقبولیت وحمایت کا یقینِ کامل ہوتو وہ اس بارے میں ہرگز پریشان نہیں ہوتا کہ وہ جس صوبے میں انتخاب لڑرہا ہے وہاں کا وزیر اعلیٰ کون ہے۔ اس کا حلقہ کس DC کے ماتحت ہے۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے پاس انتخابات پر اثرانداز ہونے کی بے پناہ قوت یقینا موجود ہے۔ 2018 میں لیکن اس قوت کو ڈھٹائی اور دھونس سے استعمال کرنا ممکن نہیں رہا۔ 2002 سے پے در پے ہوئے انتخابات کے بعد ہمارا ووٹر بہت سمجھ دار ہوچکا ہے۔ اس کا ووٹ ”چرانا“ اب ناممکن تو نہیں ازحد مشکل ہوچکا ہے۔ شہباز شریف کو اگر اپنی مقبولیت پر حقیقی ایمان ہے تو انہیں اس فکر میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ کون ہے۔ تحریک انصاف کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ کی نگرانی میں ہوئے انتخابات میں بھی اگر وہ اپنی مقبولیت ثابت کردیں تو ان کا بدترین دشمن بھی اس پر اُنگلی نہیں اٹھاپائے گا۔

ناصر کھوسہ کی نامزدگی کے فیصلے کو واپس لے کر تحریک انصاف اپنے بارے میں بلکہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لئے ایک ایسی پچ کی طلب گار ہے جو اسے Favor کرے۔ ایمپائر بھی مہربان ہونا چاہیے۔ مہربان ایمپائر اور پسند کی پچ کے بغیر تحریک انصاف انتخابی عمل کے دوران اپنا ”کرشمہ“ دکھانے کے بارے میں پُراعتماد نظر نہیں آرہی۔ سیاسی عمل کو ریاستی قوت کا محتاج سمجھتی ہے۔ Status Quo کو للکارنے والی جماعت ہرگز نہیں دِکھ رہی۔

یہ سب لکھنے کے بعد میں یہ بات دہرانے پر مجبور ہوں کہ عمران خان کو جس شخص یا گروہ نے ناصر کھوسہ کی نامزدگی والا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا وہ ہرگز تحریک انصاف کا خیرخواہ نہیں ہے۔ میں اور آپ پسند کریںیا نہیں کسی سیاست دان کو وزیر اعظم کے عہدے کے قابل ”دکھانے“ میں مقامی اور عالمی Establishment اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ ناصر کھوسہ کی نامزدگی سے رجوع والے فیصلے نے عمران خان صاحب کو ایک متلون مزاج شخصیت کے طورپرپیش کیا ہے۔ وہ اس شہرت کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان کے ساتھ ہوئی گفتگو کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔ ان سے Deal کرنے والا شخص مستقلاََ اس فکر میں مبتلا رہے گا کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم رہیں گے یا نہیں۔ پاکستان کے اس وقت افغانستان اور بھارت جیسے ہمسایوں اور امریکہ جیسی عالمی قوت سے جو معاملات چل رہے ہیں ان کے تناظر میں ”متلون مزاجی“والا تاثر ممکنہ وزیر اعظم کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ تاثر کو زائل کرنے کے لئے عمران خان صاحب کے پاس اب وقت بھی بہت کم رہ گیا ہے۔