ارادہ تھا کہ آج کے کالم میں مختلف ذرائع سے ملی اطلاعات پر غورکرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ طالبان اپنے اعلان کے مطابق پیر کے روز پاکستان کیوں نہ آپائے۔ ہمارے وزیر اعظم سے ان کے وفد کی ملاقات آج سے چند ہفتے قبل بھی تقریباََ طے ہوچکی تھی۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر آخری لمحات میں متوقع ملاقات کا ارادہ ترک کردیا گیا۔ اب کی بار طالبان دعویٰ کررہے ہیں کہ اقوام متحدہ نے امریکہ کے ایماء پر انہیں پاکستان جانے کی "اجازت" نہ دی۔ میری دانست میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ خیال کے گھوڑے مگر دوڑانہیں سکتا۔ یہ کالم لکھنے سے قبل ٹویٹس وغیرہ دیکھے ہیں تو خبر یہ ملی ہے کہ پیر کی صبح پلوامہ ہی کے ایک اور گائوں کو قابض افواج نے محاصرے میں لیا۔ مزاحمت ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بھارتی فوج کا ایک میجر چار اہلکاروں سمیت ہلاک ہوگیا۔ ثابت ہوا کہ جمعرات کے روز ہوئے واقعہ کے بعد سے بھارت میں پھیلا جنگی جنون کام نہیں آرہا۔ وادیٔ کشمیر واقعتا میدانِ جنگ بن چکی ہے۔ زمین پر موجود سکیورٹی فورسز کے لئے مزاحمت پر قابو پانا ناممکن ہوگیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ قابض افواج اب فضائی حملوں پر مجبور ہوجائیں گی۔ کئی ہفتے قبل بھارتی فوج کاسربراہ ڈرون طیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکا ہے۔ فضائی حملوں کی مدد سے جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور شوپیاں جیسے اضلاع کے کئی علاقے مقامی آبادی سے خالی کرانے کی کوشش ہوگی۔ شاید وہاں کے باسیوں کو کیمپوں میں محصور ہونے کی طرف دھکیلا جائے گا۔ خدا کرے میرے خدشات درست ثابت نہ ہوں۔ کئی مہینوں سے بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں اپنا ئی حکمت عملی پر لیکن غور کرتے ہوئے اس کالم میں "غزہ " کا ذکر کرتا رہا ہوں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو غزہ میں محصور کرنے کی جو پالیسی اپنائی ہے، بھارت بہت تیزی سے اسے اپنے لئے استعمال کرتا نظر آرہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج کے دور میں "عالمی ضمیر" نام کی شے دکھاوے کو بھی موجود نہیں۔ شام میں کئی برسوں سے خانہ جنگی جاری ہے۔ حلب جیسا تاریخی شہر تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔ یمن میں ہر پانچواں بچہ خوراک مہیا نہ ہونے کے سبب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن رہا ہے۔ ان ممالک پر آئی قیامت پر مناسب واویلا دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ ٹرمپ America First کی ضد میں مبتلا ہے۔ برطانیہ کو Brexit نے پریشان کررکھا ہے۔ فرانس کے صدر کے خلاف پیلی جیکٹوں والے سڑکوں پرنکل آئے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر نے انسانی ہمدردی کی بناء پر شام سے آئے مہاجرین کو یورپ میں پناہ دینے کی کوشش کی تھی۔ یورپ کے کئی ممالک میں اس خواہش کو شدت سے ٹھکرادیا گیا۔ پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک "مسلمان مہاجرین" کے اپنے ہاں نہ ہوتے ہوئے بھی "اسلامی شدت پسندی" کی دہائی مچاتے ہوئے فسطائی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ عالمی بے حسی کے اس ماحول میں پلوامہ یا شوپیاں کے بے تحاشہ علاقوں سے مقامی آبادی کو دھکیل کر کیمپوں میں محصور کردیا گیا تو عالمی اخبارات میں اس کی خبر شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ بھارت میں پھیلے جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے 2003 کا برس شدت سے یاد آرہا ہے۔ اس برس پاکستان اور بھارت کی افواج سرحدوں پر حالتِ جنگ میں تعینات رہیں۔ کشیدگی کو جنگ میں بدلنے سے روکنے کے لئے امریکہ اور برطانیہ یکسوہوکر پاکستانی اور بھارتی حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کی وجہ سے یہ دونوں ممالک پاک، بھارت جنگ کو ہر صورت روکنا چاہ رہے تھے۔ مذاکرات سے بات نہ بنی تو اسرائیل نے کئی مسافرطیارے بھارت بھیج دئیے۔ اس ملک میں موجود اپنے شہریوں کو ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے جمع کیا اور وطن واپس لے گئے۔ بھارتی بازار میں Panic پھیل گیا۔ واجپائی اپنی افواج کو حالتِ امن میں لے جانے کو مجبور ہوگیا۔ پاک، بھارت تعلقات کے تناظر میں ایک تاریخی Pattern رہا ہے۔ جب بھی پلوامہ جیسا کوئی واقعہ ہوا تو اس کے فوری بعدبھارت سے "ہمدردی" کا اظہار یقینا ہوا مگر ساتھ ہی مہذب انداز میں Restraint پر زور بھی دیا گیا۔ اب کی بار ایسا نہیں ہورہا ہے۔ امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی، جان بولٹن، نے بھارت کے اجیت دوول کے ساتھ دوبار فون کے ذریعے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد اس نے جو ٹویٹ لکھا اس میں بھارت کے لئے اپنے دفاع کے لئے کچھ بھی کرنے کا "حق" تسلیم کیا۔ میری دانست میں یہ ٹویٹ بہت واضح نوعیت کی ہلاشیری تھی۔ ماضی کی طرح امریکہ جیسے بااثر ممالک ہمارے خطے کو Nuclear Flash Point بتاتے ہوئے "ایٹمی جنگ"روکنے کی کوششوں میں مصروف نظر نہیں آرہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ پاکستان اور بھارت سوکنوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ان کے باہمی معاملات میں دخل دینے سے معاملات سنبھل نہیں سکتے۔ بہت سفاکی سے بلکہ یہ سوچ بھی پھیلائی جارہی ہے کہ وقت آگیا ہے کہ یہ دونوں ممالک پنجابی محاورے والا "کٹی یا کٹا" نکال ہی لیں۔ نام نہاد "عالمی ضمیر" کی اس بے اعتنائی کو ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ فی الوقت نریندر مودی اس بے اعتنائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جمعرات کے دن سے اپنے ملک میں پھیلے جنون کو Internalized کرتے ہوئے بھارتی شہروں میں مقیم کشمیری طلباء اور کاروباری افراد کا جینا دوبھر کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ مجھے گماں تھا کہ سوچ سمجھ کر پھیلائی یہ وحشت اسے پاکستان سے "بدلہ" لینے کی بڑھک کو فراموش کرنے میں مدد دے گی۔ پیر کی صبح پلوامہ ہی میں ہوئے ایک اور واقعہ کے بعد مگر اپنی سوچ سے رجوع کرنے پر مجبور ہورہا ہوں۔ "54 انچ کی چھاتی" کے دعوے دار نریندر مودی کو شاید واجپائی کی 2003 میں اپنائی Posturing سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ اس سال اپریل/مئی میں متوقع انتخابات سے قبل "کچھ کرنا" اس کی سیاسی مجبوری ہے۔
طالبان کا وفد ایک بار پھر ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے کیوں نہ آپایا۔ اس سوال پر غور کرنے کی لہذا مجھے مہلت حاصل نہیں۔ ہمیں بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا۔