مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے کئی لوگ نواز شریف صاحب کی ان دنوں اپنائی خاموشی کے بارے میں اتنے پریشان کیوں ہیں۔ بہت محنت اور استقامت سے پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے جھوٹا اور خائن قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروایا گیا اور موصوف کی کسی بھی عوامی عہدے پر واپسی کو تاعمر نااہلی کے ذریعے ناممکن بنادیا۔ موصوف کو ”ایکشن“ میں دیکھنے کے خواہاں افراد میں سے کوئی ایک بھی اس حوالے سے ان کی مدد نہ کرپایا۔ وہ دن کے 24 گھنٹے مجھ سے اور آپ سے خطاب بھی کرتے رہیں تو قومی اسمبلی وغیرہ میں ان کی واپسی ناممکن ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ سرجھکا کر نیب کے دائرکردہ دیگر دوریفرنسوں کا عدالتی دفاع کریں۔ بچت اگرچہ مشکل نظر آرہی ہے۔ ہمارے پاک باز افراد تو بلکہ اس امر پر بھی شدید ناراض ہیں کہ نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سے قبل احتساب عدالت سے ملی سزا کو مکمل نہ ہونے دیا۔ ضمانت پر رہا کردیا۔ شاید بقیہ کیسوں میں سزا ہوگئی تو اب کی بار ضمانت پر رہائی بآسانی نصیب نہیں ہوگی۔ نواز شریف ذہی طورپر آئندہ کئی مہینوں تک خو کو اڈیالہ جیل میں رہنے کے لئے تیار کررہے ہوں گے اور انہیں اس تیاری کاحق ہے۔ کم از کم میں ان کے اس حق کا احترام کرتا ہوں۔
پاکستانی سیاست کو برسوں سے بحیثیت رپورٹر دیکھتے ہوئے یہ حقیقت خوب سمجھ رہا ہوں کہ موجودہ پاکستان ”نیا پاکستان“ ہے۔ اس پاکستان میں سیاست کے نام پر ”چوری اور ڈکیتی“ کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔ نواز شریف یہ پیغام پہنچانے کے حوالے سے عبرت کا نشان ہیں۔ انہیں معاف کردینے کی گنجائش نہیں۔ خلقِ خدا کا ایک بڑا اور موثر حصہ بلکہ شاکی ہے کہ ابھی تک ”منی لانڈرنگ“ کے ذریعے لندن میں حاصل کئے ایون فیلڈ فلیٹس کی ”قرقی“ بھی نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم کے احتساب کے حوالے سے خصوصی مشیر بنائے شہزاد اکبر ہر دوسرے ہفتے میرے اور آپ کے دئیے ٹیکسوں سے ملے اختیار کے ذریعے برطانیہ جاکر ان فلیٹوں کی چابی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو ان کا قبضہ مل جائے تو ایون فیلڈ فلیٹوں کی نیلامی ہوگی۔ نیلامی سے حاصل شدہ رقوم قومی خزانے میں جمع ہوں گی تاکہ ہم بیرونی قرضے ادا کرسکیں۔ بجلی اور گیس کو سستے نرخوں پر فراہم کرنے کا بندوبست کرسکیں۔
Process شروع ہوچکا ہے۔ اسے انجام تک پہنچنے میں دیر لگے گی۔ تاہم اس سارے Process کی بدولت ہماری سیاست کو ہمیشہ کے لئے پاک صاف رکھنے کا بندوبست ہوجائے گا۔ ”چور اور لٹیروں“ کو اس دھندے میں گھسنے کی جرات نہیں ہوگی۔ نواز شریف کے سیاست میں دوبارہ متحرک ہونے کے خواہاں افراد ایک حوالے سے صفائی ستھرائی کی اس مہم کی راہ میں رکاوٹ بنتے نظر آرہے ہیں۔ سیاست مگر اب صادق اور امین قرار پائے افراد کے لئے مختص ہوگی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر اس کی عملی مثال ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں صادق وامین ٹھہرایا ہے۔ اپنی صداقت کی بدولت 2018 میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ عمران حکومت میں وزارت قبول کرنے کے بعد اب ریلوے کو جدید تر بنانے کے لئے دن رات ایک کررہے ہیں۔ وہ ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ہمیں ایسے ہی سیاست دانوں کی ضرورت ہے۔
میڈیا میں نواز شریف کی ”پراسرار“ بنائی خاموشی کے بارے میں ہوئی گفتگو سنتا ہوں تو حیران ہوجاتا ہوں۔ وہاں مچائے واویلا کے تناظر میں اطلاع یہ بھی دینا ہوگی کہ احتساب عدالت میں حالیہ ایک پیشی کے دوران جب نواز شریف نے وزیر اعظم صاحب کے قوم سے ہوئے خطاب پر تبصرے سے یہ کہتے ہوئے گریز کیا کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے تو ان کی جماعت کے ایک اہم رہ نما نے بے ساختہ اپنے قریب کھڑے صحافیوں کو مخاطب ہوکر کہا کہ کاش ان کے لیڈر ایسی ہی خاموشی چند ماہ پہلے اختیار کرلیتے اور ”ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے“۔
نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے اکثر رہ نماﺅں کی سوچ یہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نیویں نیویں رہ کر وقت گزارا جائے۔ عدلیہ اور ریاست کے دائمی اداروں کو ناراض کرنے کی کوشش نہ ہو۔ اسی تنخواہ پر ڈنگ ٹپایا جائے۔
عملی سیاست میں تین دہائیاں گزارنے کے بعد نواز شریف اپنے نام سے منسوب ہوئی جماعت کی اکثریت کے دلوں میں موجود اس خواہش کو جبلی طورپر جان چکے ہیں۔ انہیں ہرگز توقع نہیں کہ ان کی پکار پر اس ملک میں ”عرب بہار“ جیسی کوئی تحریک چلائی جاسکتی ہے۔ تلخ حقائق نے انہیں اپنی جماعت کی Limits خوب سمجھادی ہیں۔ وہ اپنے حامیوں کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ حالات کے جبر سے سیکھا یہ سبق لیکن ہم میڈیا والے ہضم کرنے کو تیار نہیں ہورہے۔ اپنی خواہشات کو خبر ہوا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔
قومی اور پنجاب اسمبلی میں نواز شریف سے منسوب ہوئی جماعت کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ اس تعداد کے ہوتے ہوئے بھی اسدعمر نے مفتاع اسماعیل کے تیار کردہ بجٹ کو اپنی ترجیحات کے مطابق بدل کر قومی اسمبلی سے بآسانی منظور کروالیا۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حمزہ شہباز شریف مخدوم ہاشم بخت کے بجٹ کے بارے میں ہوئے اجلاس سے باہر رہ کر پنجاب کے وزیرخزانہ کے بہترین سہولت کار ثابت ہوئے۔ اپوزیشن پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے لئے موجود ہوتی تو کچھ پتہ چلتا کہ لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں شہباز شریف کی جانب سے متعارف کروائی میٹروبسوں کو جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ موجودہ کرایوں کے ساتھ انہیں رواں رکھنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اورنج ٹرین کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ ان تمام معاملات کے بارے میں تفصیلی حقائق لیکن مخدوم ہاشم کے دئیے بجٹ کے بارے میں اٹھائے سوالات کے ذریعے ہی معلوم کئے جاسکتے تھے۔ حمزہ شہباز نے مگر یہ سوالات اٹھانے کی اجازت ہی نہ دی۔ اسمبلی کے باہر احتجاج میں مصروف رہے۔ فیاض الحسن چوہان نون والوں کو مسلسل للکارتے رہے۔ وہ کوئی مناسب جواب فراہم نہ کرپائے۔
پیر کے دن سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہورہا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اپنی ”اجتماعی بصیرت“ سے کام لیتے ہوئے مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی حکومت وقت سے سعودی عرب کے ساتھ حال ہی میں ہوئے معاہدے کے بارے میں عوام کے لئے کیا معلوم کرتے ہیں۔ یو اے ای، ملائیشیاءاور چین بھی پاکستان کی معاشی مشکلات میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے کچھ سہولتیں فراہم کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان سہولتوں کے میسر ہوجانے کے بعد عمران حکومتIMF سے بھی ایک مناسب پیکیج لینے میں کامیاب ہوگئی تو چند ماہ بعد اقتصادی میدان میں رونق لگ جائے گی۔ نواز شریف کو اس رونق میں رکاوٹ بننے کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہیے۔