1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. یہ بنیادی سوالات ہمارا چوکس ہونے کا داعی میڈیا ہرگز نہیں اٹھائے گا

یہ بنیادی سوالات ہمارا چوکس ہونے کا داعی میڈیا ہرگز نہیں اٹھائے گا

سوالات جواُٹھانا ضروری ہوتے ہیں،انہیں ہم اٹھانے کی صلاحیت،سکت اور جرات سے قطعاََ محروم ہوچکے ہیں۔سیاپاگری اسی لئے تو ہمارا مقدر ہوئی نظر آرہی ہے۔

پیر کی شام لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے جو سانحہ ہوا وہ اتنا”اچانک“بھی نہیں تھا۔سکیورٹی کے معاملات سے جڑی مہارت سے قطعی ناآشنا شخص بھی چند دنوں سے اس خدشے میں مبتلا تھا کہ PSL-2 کے فائنل کو زندہ دلوں کے شہر میں منعقد ہونے سے روکنے کے لئے دہشت گرد کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔اس ٹھوس خدشے کے ہوتے ہوئے بھی پیر کے روز دوائیوں کا کاروبار کرنے والوں کو مال روڈ پر احتجاج سے روکا نہ جاسکا۔وہ پنجاب اسمبلی کی طرف بڑھنا شروع ہوئے تو لاہور کے کئی گنجان علاقوں کو ایک دوسرے سے ملانے والی سڑکیں جام ہوگئیں۔

سانحے سے دُکھی ہوا دل مجبور کررہا ہے کہ فی الوقت اس سوال کو کسی اور وقت کے لئے اٹھانے کی خاطر نظرانداز کردیا جائے کہ دنیا کے کونسے ملک میں کمزور ترین حکومت بھی دوائیاں بیچنے والوں کو احتجاج کے نام پر اپنی دوکانیں کاملاََ بند کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ احتجاج کی بنیاد وہ قانون ہے جونظر بظاہر جعلی ادویات کی فروخت کو روکنے کے لئے بنایا گیا ہے۔خالص اور معیاری ادویات بنانے اور انہیں بازار میں بیچنے والے اس قانون پر خفا کیوں ہوں گے؟ شیکسپیئر کی وہ عورت یاد آگئی جو”بہت احتجاج“ کرتی تھی۔دال میں تھوڑا نہیں بہت کچھ کالا ہے۔

بہرحال دھماکہ ہوگیا۔قیمتی جانوں کا زیاں۔خوف اور دہشت کی فضا۔ یہ دھماکہ ہوجانے کے چند ہی منٹ بعد مگر ٹی وی سکرینوں پر نیکٹا کی جاری کردہ ایک دستاویز نظر آنا شروع ہوگئی۔ غصے میں بھنائے ہوئے رپورٹر اس دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کرنا شروع ہوگئے کہ 7فروری کو ایک ”خفیہ“خط کے ذریعے پنجاب حکومت کو ”متنبہ“ کردیا گیا تھا کہ لاہور میں کچھ ہوگا۔حفاظتی اقدامات لہذا مزید چوکس نظرآنا ضروری ہوگیا ہے۔

یہ بات بالکل عیاں تھی کہ نیکٹا کے دفتر میں بیٹھے کسی سفاک شخص نے یہ ”خفیہ“خط اپنے چہیتے رپورٹروں کو Whatsapp وغیرہ کے ذریعے پہنچادیا تھا۔یوں اپنے ادارے کو ہمہ وقت ”چوکس“ثابت کرتے ہوئے سانحے کی پوری ذمہ داری پنجاب حکومت کے سرڈالنے کی گنجائش پیدا کردی۔سنسنی خیز سیاپا فروشی شروع ہوگئی۔میڈیا کی توجہ اس سوال پر مبذول نہ رہ پائی کہ ہسپتال پہنچے زخمیوں کو مناسب طبی سہولیات مل پارہی ہیں یا نہیں۔خون کے عطیات کی ضرورت تو نہیں۔ایمرجنسی صورتوں میں لازمی گردانی ادویات وافر مقدار میں میسر ہیں یا نہیں۔

مجھے اصل دُکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کے نام نہاد سینئر افراد اور نیوز ایڈیٹروں نے اس خط کا متن پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جس کے ذریعے پنجاب حکومت کو متنبہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

اس خط کا متن انٹرنیٹ پر میسر ہے۔خدا کے لئے اسے ایک نظر دیکھ لیں۔ 7فروری کو جاری ہوئے اس نام نہاد ”الرٹ“ میں ”اطلاع“ یہ دی گئی ہے کہ "An Unidentified Terrorist Group"لاہور میں کچھ کرنا چاہ رہا ہے۔ میں اپنا سرپکڑے یہ جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ اس پیغام کو ٹھوس اطلاع کیسے کہا جاسکتا ہے۔”ایک دہشت گرد گروہ جس کا نام تک نیکٹا کو معلوم نہیں تھا لاہو میں کچھ کرنا چاہ رہا تھا“ ہرگز کوئی اطلاع نہیں ہے۔یہ مثال کے طور پر ویسی ہی ”اطلاع“ ہے کہ پنجاب حکومت کو بتایا جائے کہ ایک کار جس کے بارے میں یہ علم نہیں کہ وہ ہنڈا ہے یا ٹیوٹا،راوی کا پل پارکرچکی ہے۔خدشہ ہے کہ اس میں دو،تین یا چار مگر دہشت گرد موجود ہیں جو لاہور میں کوئی خوف ناک واردات کرنا چاہ رہے ہیں۔

نیکٹا نے7فروری کو لکھا خط لوگوں کو دکھاتے ہوئے فقط سفاکانہ پوائنٹ سکورنگ کرنا تھی۔خود کو چوکس ثابت کرنا تھا۔وہ ظالمانہ مہارت کے ساتھ میڈیا میں سنسنی خیزی کی تڑپ کا استحصال کرتے ہوئے اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔جس افسر نے یہ خط رپورٹروں تک پہنچایا وہ یقینا ہٹلر کے گوئبلز کے نام سے منسوب کسی ایوارڈ کا مستحق ہے۔

نیکٹا کی اس”چوکسی“ کا تقابل اس تنظیم سے کیجئے جس نے لاہور دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دھماکے کے صرف ایک گھنٹہ بعد اس تنظیم نے آسان اُردو میں ایک مختصر پیغام دیا۔ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس شخص کا نام بھی لے دیا جو خودکش حملے میں استعمال ہوا تھا۔رات گئے اس شخص کی تین تصاویر بھی ہم صحافیوں کو مختلف انٹرنیٹ Apps کی بدولت دستیاب ہوگئیں۔

چند ہی روز قبل ہماری ریاست نے کچھ نوجوانوں کو ”گم شدہ“کردیا تھا۔انہیں کس نے اُٹھایا اور بالآخر چھوڑ کیوں دیا گیا۔ ان سوالوں کا جواب ہمیں کسی نے فراہم کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔اپنے گھروں کو لوٹنے کے بعد چند دن کے لئے ”گم شدہ“ ہوئے لوگ اور ان کے پیارے بھی ”جان بچی سو لاکھوں پائے“ والی سوچ کے ساتھ اپنے لب سیئے ہوئے ہیں۔

مذکورہ نوجوانوں کی ”گم شدگی“ کے دوران ہمارے میڈیا میں البتہ وطن عزیز اور دین اسلام کے اپنے تئیں محافظ بنے کئی لوگوں نے تسلسل کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ لاپتہ ہوئے نوجوان فیس بک وغیرہ کے ذریعے مبینہ طورپر ”دین ووطن دشمن“ پیغامات کی ترویج کے مرتکب ہورہے تھے۔لاپتہ ہوئے افراد کے بارے میں پھیلائی ان باتوں سے چودھری نثار علی خان بھی گھبراگئے۔ایک نہیںدوبیانات کے ذریعے درد مندانہ اپیل کی کہ لاپتہ افراد کے بارے میں ایسی باتیں نہ پھیلائی جائیں جو نہ صرف ”گم شدہ افراد“بلکہ ان کے عزیزوں اور رشتے داروں کی جان کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

لاپتہ افراد کے بارے میں حقیقت کیا تھی،یہ تو ہمیں آج تک پتہ نہیں چل پایا۔ایک بات مگر طے ہوگئی اور وہ یہ کہ ہماری ریاست کے پاس اب ایسے جدید ترین آلات موجود ہیں جن کے ذریعے فرضی ناموں سے فیس بک اور انٹرنیٹ کی دوسری Apps کے ذریعے ناپسندیدہ پیغامات بھیجنے والوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت جان لینے کے بعد سوال اٹھانا ضروری ہے کہ ان ہی آلات کی بدولت کم از کم یہ کیوں نہیں معلوم کیا جاسکتا کہ لاہور میں دھماکے کی ذمہ داری لینے والی تنظیم کے پیغامات کہاں سے Generate ہوکرہم سب صحافیوں تک مسلسل اور بروقت پہنچ جاتے ہیں۔چند دن گزرجانے کے بعد فرانزک تفتیش کی تمام تر سہولتوں کے بھرپور استعمال کے ذریعے ہمیں یہ بتانا بھی تو ضروری ہے کہ لاہور میں ہوئے دھماکہ کا ذمہ دار وہی خودکش تھا جس کانام اور تصویر اس سانحے کی ذمہ داری لینے والی تنظیم نے اپنے سرلی ہے۔

یہ بنیادی سوالات لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارا بے باک اور ہمہ وقت چوکس ہونے کا دعوے دار میڈیا پوری توجہ اور لگن کے ساتھ ہرگز نہیں اٹھائے گا۔چند روز کی ماتم کنائی کے بعد ہم کسی اور سانحے کا انتظار کرتے نظر آئیں گے۔