انیلہ افضال کا افسانہ "الفیل" شناخت، قوم پرستی، اور تارکین وطن کی زندگیوں کے بارے میں ایک پُرجوش اور کثیر الجہتی تحقیق پر مبنی بہترین کہانی ہے، جو 28 مئی کو "یوم تکبیر" کے پس منظر میں ترتیب دی گئی ہے۔ 1998 میں جب پاکستان نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو پاکستان میں مقیم عوام کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی اپنی بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ نازک واقعہ ایک محور کا کام کرتا ہے اس ایٹیمی دھماکے کے گرد کہانی کا بیانیہ کھلتا ہے، افسانہ نگار انیلہ افضال نے ایک زبردست کہانی تخلیق کی ہے جس کے ذریعے کرداروں کے جذباتی اور نفسیاتی مناظر کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
انیلہ افضال کہانی کا آغاز یوں کرتی ہیں"اس دن" الکاؤز" کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ آج تو دیپک اور مشرا بول بول کر میرا دماغ ہی کھا جائیں گے۔ سنا تو وہ خیر مجھے ہمیشہ سے رہے تھے کوئی ایک پل، کوئی ایک موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے، جب وہ مجھے طعنے نہ دیتے اور میں ان کے طعنوں کے جواب میں کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، لہذا کبھی خاموشی سے سر جھکا لیتا اور کبھی ڈھیٹوں کی طرح مسکرا کر بات کو ان سنا کر دیتا۔ کبھی کبھار کسی کمزور سی دلیل کے ساتھ ان کے سامنے کھڑا بھی ہو جاتا مگر وہ دونوں مجھے چٹکیوں میں اڑا دیتے۔ اس دن تو حد ہی ہوگئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ آج میری خیر نہیں، آج ان دونوں کے لیے جشن کا سماں تھا اور میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام"۔
افسانہ "الفیل" کا آغاز مرکزی کردار کے ساتھ ہوتا ہے جو کہ ایک پاکستانی تارکین وطن ہے اور وہ دبئی میں اپنی مشترکہ رہائش کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے ہندوستانی روم میٹ، دیپک اور مشرا کے ساتھ ایک خوفناک تصادم کی توقع رکھتا ہے، جو پاکستان کی سمجھی جانے والی کوتاہیوں پر اسے عادتاً طعنے دیتے رہتے ہیں۔ ماحول اضطراب اور گھبراہٹ سے بھرا ہوا ہے، جو مرکزی کردار کے اندرونی انتشار اور کرداروں کے درمیان واضح تناؤ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کہانی مرکزی کردار کے خوف کو سامنے لاتی ہے جب وہ ہندوستان کے حالیہ جوہری تجربات کے بعد ہندو ساتھیوں کی طرف سے طنز کے ایک اور دور کے لیے تیار ہوتا ہے۔
انیلہ لکھتی ہیں کہ "میں سیڑھیوں سے اپنے کمرے تک پہنچنے کی تک و دو میں تھا ایسا نہیں کہ "الکاؤز" کی لفٹ خراب تھی یا میں اس کو استعمال کرنا نہیں جانتا تھا بات صرف یہ تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت ان سے دور رہنا چاہتا تھا۔ ان سے کیا، اس دن تو میں خود سے بھی دور رہنا چاہتا تھا۔ مجھے دبئی آئے ہوئے دو ہی برس ہوئے تھے۔ دیپک اور مشرا پرانے چاول تھے۔ میں"برج العرب" کے پراجیکٹ میں بطور ایک ورکرکے کام کر رہا تھا اور وہ دونوں کسی الیکٹرانک کمپنی میں ملازم تھے۔ دو سالوں میں میں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ کہ وہ دونوں کہاں کام کرتے ہیں، کیونکہ پہلے تو میں ان سے چڑتا تھا مگر اب میں ان سے خوفزدہ ہونے لگا تھا اور اس دن تو میں کمرے کی طرف جاتے ہوئے پسینے پسینے یو رہا تھا"۔
انیلہ افضال پوری مہارت کے ساتھ پورے افسانے میں علامت نگاری کا استعمال کیا ہے۔ "الفیل" کا عنوان ابرہہ کی فوج کے تاریخی بیان اور ابابیل پرندوں کی معجزانہ مداخلت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو اس کے جوہری تجربات کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری کے غیر متوقع لیکن طاقتور دعوے کے متوازی ہے۔ یہ استعارہ الہٰی انصاف کے موضوعات اور ایک طاقتور مخالف کے خلاف بظاہر کمزور نظر آنے والے ملک کی فتح کو اجاگر کرتا ہے۔
انیلہ رقمطراز ہیں کہ "میرا تعلق کراچی سے ہے جبکہ دیپک اور مشرا کیرالہ بھارت کے رہنے والے ہیں۔ یہاں دبئی میں ستر فیصد لوگ دوسرے ملکوں کے باشندے ہیں۔ جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، فلپائن اور دیگر مشرقی اور افریقی ممالک کے لوگ شامل ہیں۔ یہاں سب مل جل کر رہتے ہیں۔ بس پاکستانی اور انڈینز کے مابین کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے۔ خاص طور پر کرکٹ کے باعث، لیکن میری اور ان دونوں کی کھینچا تانی کرکٹ کی وجہ سے نہیں تھی۔ یہ لوگ کئی پوائنٹس پر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ کبھی سیاست، کبھی کرپشن، کبھی لوڈ شیڈنگ، کبھی بیروزگاری، اور میں اکثر شرمندہ ہو جایا کرتا۔ ایسا نہیں کہ میں ان کے ملک کی کمزوریوں کا ذکر نہیں کرتا تھا۔ جہاں جہاں میرا بس چلتا، میں بھی انہیں رگید دیتا تھا۔ خاص طور پر جب وہ واش روم استعمال کرکے نکلتے تو میں اکثر کہتا: دعائیں دو دبئی کو، اور دعائیں دو مسلمانوں کو، کہ واش روم استعمال کر رہے ہو۔ اپنے ملک میں ہوتے تو کسی ٹرین کی پٹڑی پر یا کسی جھاڑ کے پیچھے بیٹھے ہوتے۔ وہ شرمندہ سی ہنسی ہنس دیتے اور میری انا کی تسکین سی یو جاتی"۔
مصنفہ نے اپنے افسانہ "الفیل" میں تارکین وطن کی زندگی کی نفسیات کو بیان کیا ہے جہاں قومی فخر اور ذاتی شناخت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ مرکزی کردار کے تجربات ہندوستان اور پاکستان کے درمیان وسیع تر سماجی و سیاسی تناؤ کو سامنے لاتے ہیں، جو قوم پرستی اور جغرافیائی سیاسی دشمنی کے کراس فائر میں پھنسے افراد کی جدوجہد اور لچک کی عکاسی کرتے ہیں۔
انیلہ لکھتی ہیں کہ "اس دن کا مسلہ بڑا گمبھیر تھا۔ اس دن میرے چیتھڑے اڑنے والے تھے۔ دو دن پہلے نازل ہونے والا عتاب ابھی میں بھولا نہیں تھا کہ آج پھر سے۔۔ میں کمرے کے بیرونی دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ میں نے دیپک اور مشرا کی سرشار آوازیں سنیں۔ وہ بھارت کے ملی نغمے گا رہے تھے، ناچ رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے۔ میں آہستگی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ان دونوں نے میرے ارد گرد ناچنا شروع کر دیا۔ وہ ناچتے جاتے اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگاتے جاتے۔ میں ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے میں کچھ جانتا ہی نہیں"۔
مرکزی کردار اور اس کے روم میٹ، دیپک اور مشرا کے درمیان تعاملات داستان کے لیے اہم ہیں۔ یہ کردار اپنی قومی شناخت کے محض نقاشی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں گہرائی بھی شامل ہے، ہر ایک وسیع تر سماجی رویوں اور تعصبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ دیپک اور مشرا کا ہندوستان کی جوہری صلاحیت کا پرجوش جشن پاکستان کے جوابی تجربات کے بارے میں سن کر مرکزی کردار کی ابتدائی رسوائی اور بعد میں خوشی کے ساتھ تیزی سے سامنے آتا ہے۔
انیلہ افضال لکھتی ہیں کہ "اگلے تیرہ چودہ دن میں نے جس ذہنی اذیت میں گزارے میں ہی جانتا ہوں۔ میں نے یہاں تک سوچ لیا تھا کہ نوکری چھوڑ کر پاکستان واپس چلا جاؤں۔ صرف دیپک اور مشرا ہی نہیں پورے دبئی میں ہر انڈین پاکستانیوں کو اسی طرح ٹارچر کر رہا تھا۔ میں نمازوں میں رونے لگا تھا۔ یہی حال تقریباً ہر پاکستانی کا تھا۔ آج میں کام سے واپس لوٹا تو میرے اندر جیسے بجلی بھری ہوئی تھی۔ "الکاؤز" کی لفٹ مجھے خاصی سست لگ رہی تھی۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا، میں روشنی کی رفتار پکڑ لوں اور پلک جھپکتے ہی کمرے میں پہنچ جاؤں۔ پاکستان زندہ باد! میں نے کمرے کا بیرونی دروازہ کھولتے ہی نعرہ لگایا۔ دیپک اور مشرا خاصے افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ یار! ٹی وی تو لگاؤ، میں نے ریموٹ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ یہ رہا! میں نے ریموٹ پکڑ کر ٹی وی آن کیا۔ خبر چل رہی تھی! "پاکستان نے تاریخ رقم کر دی۔ چاغی کے پہاڑ، تاریخ میں امر ہو گئے۔ پاکستان نے خطے میں طاقت کا توازن قائم کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر دیئے۔ اس طرح پاکستان ایٹمی طاقت بننے والا دنیا کا چھٹا اور اسلامی دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے"۔
بیرون ملک مقیم محب وطن پاکستانیوں کے جزبات کی بھرپور عکاسی انیلہ افضال کے افسانہ الفیل میں کی گئی ہے، جس میں غیر ملکی وجود کی پیچیدگی کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے جہاں دوستی اور تنازعات ایک ساتھ رہتے ہیں۔ مرکزی کردار کا مایوسی سے فتح تک کا اندرونی سفر پاکستان کے ایک ایٹمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بڑے بیانیے کا آئینہ دار نظر آتا ہے، جس میں یوم تکبیر پر دنیا بھر میں پاکستانیوں کی طرف سے محسوس ہونے والے فخر اور سروخروئی کو شامل کیا گیا ہے۔
افسانہ نگار اپنے افسانہ الفیل کے کرداروں کی جذباتی اور نفسیاتی گہرائی تک پہنچانے میں کمال حاصل کیا ہے۔ مرکزی کردار کا ابتدائی خوف اور تنہائی واضح نظر آرہا ہے کیونکہ وہ اپنے کمرے کے ساتھیوں کی طرف سے طنز کی توقع کرتا ہے۔ پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربات پر اس کے بعد کی خوشی بھی اتنی ہی بہترین ہے، جو پاکستان کے قومی فخر کے ایک ایسے لمحے کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے جو انفرادی خوشی سے بالاتر ہے۔
انیلہ افضال کا بیانیہ اسلوب خود شناسی پر مبنی ہے، جو قارئین کو مرکزی کردار کی اندرونی کشمکش اور اجتماعی یادداشت اور شناخت کے وزن کو جاننے کی اجازت دیتا ہے۔ کہانی کی جذباتی اسلوب اس کے تاریخی سیاق و سباق میں مکمل طور پر دکھائی دیتا ہے۔
انیلہ افضال کہانی کا اختتام یوں کرتی ہیں کہ "میری خوشی دیدنی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم پاکستانی عوام سے خطاب کرنے والے تھے۔ میں ٹی وی کے سامنے جم کر بیٹھ گیا۔ دیپک نے سر درد کا بہانہ بنا کر ٹی وی بند کر دیا۔ مشرا بھی بجھا بجھا سا تھا۔ یہ ملکوں کے معاملات ہیں دیپک، انہیں وہیں تک رہنے دیتے ہیں نا یار! میں نے دیپک کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مشرا! پاکستان نے ایٹمی دھماکے آج کئے ہیں، تم نے صرف آج کی بات سنی ہے، مگر میں جانتا ہوں کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ بس وقت تھوڑا زیادہ لگ گیا۔ چودہ سو سال پہلے ابراہہ کی فوج پر ابابیلوں نے جو کنکر برسائے تھے، وہ کسی ایٹم بم سے کم تھے کیا؟ سوچو میرے دوست! ایک کنکر ایک ہاتھی کو بھوسے میں کیسے بدل سکتا ہے! مشرا آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں پرجوش تھا۔ نعرہ تکبیر! اللہ اکبر"۔
انیلہ افضال کا افسانہ "الفیل" صرف تارکین وطن کی زندگی کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ایک اہم لمحے کی عکاسی پر مبنی بہترین معاشرتی کہانی ہے۔ یوم تکبیر، جس دن پاکستان ایک اعلانیہ جوہری طاقت بنا، اسے نہ صرف ایک سیاسی سنگ میل کے طور پر پیش کیا گیا ہے بلکہ مرکزی کردار کے لیے مزید خوشی کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے، یوم تکبیر کو تمام پاکستانیوں کے لیے ایک گہری جذباتی اہمیت کے لمحے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ قومی فخر کے جوہر اور دیرینہ علاقائی رقابتوں کا سامنا کرتے ہوئے احساس حق کی عکاسی کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انیلہ افضال کا افسانہ "الفیل" ایک طاقتور اور فکر انگیز افسانہ ہے جو تاریخی واقعات کے ساتھ ذاتی بیانیہ کو بڑی تدبیر سے سامنے لاتی ہے۔ اپنی بھرپور علامت نگاری، پیچیدہ کرداروں، اور گہرے جذباتی اسلوب کے ذریعے، کہانی شناخت، قوم پرستی، اور جغرافیائی سیاسی واقعات کے نفسیاتی اثرات کی زبردست تلاش پر مبنی حب الوطنی کی بہترین کہانی ہے۔ میں مصنفہ کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔