حکیم ناز جلالوی ایک ممتاز صوفی شاعر ہیں جو اپنی پنجابی زبان میں"کافیوں" کے لیے مشہور ہیں آپ نے پنجابی حمد، نعت، نظم، غزل اور کافی شاعری کی شہرت حاصل کی ہے، انہوں نے پنجابی کافی شاعری میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ "کافی" پنجابی زبان میں عقیدتی شاعری کی ایک شکل ہے جو روحانی اور صوفیانہ عناصر سے مالا مال ہے۔ گہری فلسفیانہ موسیقی اور شدید جذباتی گہرائی سے نشان زد حکیم ناز جلالوی کی کافی شاعری، صوفیانہ افکار و خیالات پر مبنی بہترین شاعری ہے، آپ اپنی کافی شاعری کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ یہ کافیاں قاری کے دل کی گہرائیوں میں نقش ہوجاتی ہیں۔
آج کے اس کالم کا مقصد حکیم ناز جلالوی کی معروف پنجابی کافیوں میں سے ایک کافی کا تنقیدی تجزیہ پیش کرنا ہے اور ان کی پنجابی کافیوں کی موضوعاتی گہرائی، اسلوبیاتی عناصر اور فکری بنیادوں کا جائزہ لینا ہے، ساتھ ہی اس "، کافی" کے پنجابی زبان سے کھوار زبان میں کیے گئے تراجم کا بھی فنی و فکری جائزہ لینا ہے۔
سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب اور دانشور ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم رقمطراز ہیں کہ "حکیم ناز جلالوی دورِحاضر کے ایک معروف صوفی شاعر ہیں انہیں کافیوں کے میدان میں خوب شہرت حاصل ہے، ان کی ایک کافی پیش نظر ہے جس میں انہوں نے اپنے فن کاخوب جلوہ دکھایا ہے، پنجابی زبان میں لکھی گئی یہ کافی اپنے آنگن میں فکری حوالے سے بے پناہ وسعت رکھتی ہے"۔
جہاں حکیم ناز جلالوی کی پنجابی کافیوں میں موضوعاتی گہرائی ہے وہاں فنی و فکری دونوں لحاظ سے یہ کافیاں بہترین صوفیانہ شاعری کی اعلیٰ مثال کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔
حکیم ناز جلالوی کی کافی کا مرکزی موضوع الله تعالیٰ کی قادر مطلقیت اور ہمہ گیریت کے گرد گھومتا ہے، جو خالق کے ساتھ ملاپ کے لیے انسانی روح کی آرزو کو واضح کرتا ہے۔ اس آرزو کا اظہار واضح تصویری اور استعاراتی زبان کے ذریعے ہوتا ہے جو صوفی فلسفے کے دل سے بات کرتی ہے۔
جلالوی تخلیق اور تباہ کرنے کی الٰہی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے "کافی" کہنا شروع کرتا ہے اور خدا کی مرضی کے سامنے انسانی حیثیت کی بے کاری پر زور دیتا ہے:
"سبھ کُجھ توڑن پھوڑن والا جوڑن والا توں ایں۔
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں"
یہاں شاعر کائنات پر خالق کائنات کے مکمل اختیار کی بات کرتا ہے، جو صوفی ادب میں ایک بار بار چلنے والا موضوع ہے جو خدائی اجازت کے بغیر انسانی کوششوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
شاعر نے انسانی کمزوری اور الٰہی کی بے پایاں رحمت کا بڑے پُرجوش انداز میں اظہار کیا ہے:
"اپنی مرضی والیا سائیاں جو چاہیں توں کردائیں۔
جس دی چاہویں نال خوشی دے اُس دی جھولی بھردائیں"
یہ اشعار تسلیم کرنے کے جوہر کو سمیٹتے ہیں، جو کہ تصوف کا ایک کلیدی اصول ہے، جہاں عقیدت مند اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ تمام خوشی اور غم خدا کی مرضی سے پیدا ہوتے ہیں۔
شدید تڑپ اور روحانی نشہ کے موضوع کو مہارت سے پیش کیا گیا ہے:
"مینوں تیرے ملن دا چڑھیا عشق نشے دا جنوں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں"
جلالوی نشہ کے استعارے کا استعمال کرتے ہوئے روح کی الٰہی ملاپ کے لیے پرجوش خواہش کو بیان کرتے ہیں، یہ حالت اکثر صوفی شاعری میں پائی جاتی ہے۔
شاعر خدائی فضل سے محروم لوگوں کی حالت زار بیان کرتا ہے:
"ککھ پلّے نہیں راہندا اُس دے جِس نوں توں پھڑکاویں
در در بھیک منگاویں اُس توں گلیاں وچ رُلاویں"
یہ الٰہی احسان پر انسانی وجود کے انحصار کو نمایاں کرتا ہے، مزید عاجزی اور عقیدت کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
حکیم ناز جلالوی کی پنجابی کافیوں کے اسلوبی عناصر کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کافیاں پنجابی زبان کی بہترین اور مقبول کافیوں میں سے ایک ہیں
آپ کی کافی میں پرہیز بھی نظر آرہا ہے مثلاً "تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں" الہٰی بالادستی کے غالب موضوع کی ایک طاقتور یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے، اس پیغام کو اس کی تکراری ساخت کے ذریعے تقویت دیتا ہے۔
حکیم ناز جلالوی کا بہترین تصوّر اور استعارہ کا استعمال، جیسے کہ الہٰی طاقت کا اس طاقت سے موازنہ کرنا جو پتھروں کو پنکھوں کی طرح اڑانے کی صلاحیت رکھتا ہے، کافی کے جذباتی اور روحانی معیار کو بڑھاتا ہے مثلاً:
"ککھ پلّے نہیں راہندا اُس دے جِس نوں توں پھڑکاویں
در در بھیک منگاویں اُس توں گلیاں وچ رُلاویں
جے چاہویں تے پتھر اُڈاویں وا وچ وانگوں روں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں"
شاعر کی مقدس ہستیوں کی دعوت اور خدائی فضل کی التجا پنجابی کافی کو ذاتی اور فلسفیانہ لہجے سے متاثر کرتی ہے، جو قاری کو شاعر کے روحانی سفر کی طرف کھینچتی ہے:
"صدقہ پنج تن پاک دا سائیاں بخشیں آپ حضوری
صدقہ کربل منگیائے سائیاں آپ کریں نہ دوری"
آپ کی پنجابی کافیاں محض ایک عقیدت کا ٹکڑا ہی نہیں ہیں بلکہ یہ انسان اور الٰہی رشتے کی ایک فکری کھوج پر مبنی بہترین صوفیانہ شاعری بھی ہیں۔ آپ کی شاعری قارئین کو ان کی اپنی روحانی حالت اور دنیاوی زندگی کی عارضی نوعیت پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ الہٰی مرضی، انسانی کمزوری، اور الہٰی محبت کی جستجو جیسے موضوعات کا شاعر کا فصاحت و بلاغت کا اظہار صوفی فلسفہ کے فکری اور جذباتی مرکز کی ترجمانی کرتا ہے۔
حکیم ناز جلالوی کی پنجابی کافیوں کا کھوار ترجمہ لسانی اور ثقافتی تقسیم کو ختم کرنے میں مدد گار ہوگا۔
راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کا جلالوی کی کافی کا کھوار میں ترجمہ اس گہری روحانی شاعری کو وسیع تر قارئین تک پہنچانے کی پہلی کوشش ہے۔ میں نے اصل پنجابی کافیوں کی جذباتی شدت اور موضوعاتی گہرائی کو کھوار زبان کی باریکیوں کے مطابق ڈھالنے کی پہلی بار کوشش کی ہے امید ہے کہ یہ پنجابی اور کھوار دونوں زبانوں کے قارئین کو پسند آئیں گے۔ پنجابی زبان سے کھوار کا یہ ترجمہ ادبی اور ثقافتی تحفظ دونوں کے لیے ایک اہم شراکت ہے، میں نے تراجم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ حکیم ناز جلالوی کی پنجابی کافیوں میں شامل روحانی ورثہ متنوع لسانی برادریوں تک پہنچے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حکیم ناز جلالوی کی پنجابی کافی صوفی شاعری کا ایک شاہکار ہے، جو موضوعاتی گہرائی، اسلوبی خوبصورتی اور فکری سختی سے مالا مال ہے۔ اپنی پُر اثر اشعار کے ذریعے جلالوی قارئین کو روحانی سفر کی دعوت دیتے ہیں، اور ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ خدا کی قادر مطلقیت اور عاجزی اور عقیدت کی اہمیت کو پہچانیں۔ راقم الحروف کا کھوار میں ترجمہ مزید اس روحانی پیغام کی رسائی کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ لسانی اور ثقافتی تقسیم کو بھی ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ جلالوی کا کام صوفی فکر کی لازوال طاقت اور اس کی حدود کو عبور کرنے اور انسانی روح کو چھونے کی صلاحیت کا لازوال ثبوت ہے۔ میں حکیم نازؔ جلالوی کو ان کی شاندار پنجابی کافیوں کی تخلیق پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے حکیم نازؔ جلالوی کی پنجابی کافی اور کھوار تراجم پیش خدمت ہیں۔
تصوف رنگ (کافی)
سبھ کُجھ توڑن پھوڑن والا جوڑن والا توں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں
اپنی مرضی والیا سائیاں جو چاہویں توں کردائیں
جس دی چاہویں نال خوشی دے اُس دی جھولی بھردائیں
مینوں تیرے ملن دا چڑھیا عشق نشے دا جنوں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں
ککھ پلّے نہیں راہندا اُس دے جِس نوں توں پھڑکاویں
در در بھیک منگاویں اُس توں گلیاں وچ رُلاویں
جے چاہویں تے پتھر اُڈاویں وا وچ وانگوں روں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں
باہجھ تیرے نہیں طاقت کوئی نہ کوئی ہور بیگاناں
میں کہڑے ہاں باغ دی مولی تئیں نوں ہے خسماناں
وچ ساہواں دی گڈّی بہہ کے کر کر چلدائیں گھوں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں
صدقہ پنج تن پاک دا سائیاں بخشیں آپ حضوری
صدقہ کربل منگیائے سائیاں آپ کریں نہ دوری
عشق عطا کر وانگ اویسؒ اہہ نازؔ کرے لوں لوں ایں
تیرے اگّے کر نہیں سکدی کوئی وی سائیاں چوں ایں۔
کھوار تراجم
اے مه خالق اوچے مالک خدائے کیہ قسمہ کی ہیہ دنیا ہر اشناریو چھینکو اوچے ساوزئیکو طھاقت تتے حاصل شینی ہش تانچقہ ہر اشناریو امچھئیکو قوات دی تتے تان حاصل شیر۔ وا ته قندرتو پروشٹہ کوس میجیل نیکی کی کا سانس گانیکو بوئے۔
تو تان مرضیو مالک اسوس، تو کیاغکہ کوم ریتاو کوریکو بوس ہیہ تہ شان شیر کہ تو کوس سورا کی مہربان ہوؤ ہتو اوانو تان لطف اوچے کھرمار ٹیپیئسان۔
اے مہ شیرین ژانو مالک مہ ہردیا تہ سوم ملاقاتو عشق انتہائی عروجہ شیر۔ ہیہ ای نشہ شیر کی ہیارا جنونو غون کیفیت پیدا بیتی شیر وا ہیہ لو دی متے معلوم شیر کی ته دربارا چوں و چراں کوریکو پھوک دی گنجائش نیکی۔
اے مہ مالک تو کوسار کی ناراض بوسان ہتو اوان ته رحمتاری خالی بویان وا ہسے ای تھیش مشکاکو غون در پھدار بیتی راہ راہی کاسیران۔ وا ہتوتے سکون نصیب نو بویان۔
اگر تو کی کوم ریتاؤ تھے بوھرتان دی پورمان غون ہوا اڑاؤ کوریکو بوس۔ تو سف طھاقتان مالک اسوس۔ تہ پروشٹہ لو دیکو کا دی جرات کوریکو نو بوئے۔
اے مہ مالک تہ سار غیر کوستے دی کیہ طھاقت حاصل نیکی ہر ژاغا تہ نام چلوران۔
اوا کیہ باغو مولیئی اسوم ته قندرتان سورا باث (بحث) کوروم
اوا تان سانسان موٹیرا نیشی ته قندرتان نظارہ کوراؤ گومان۔
متے پتہ شیر کی ته پروشٹہ روپھیکو کوس موژا ہمت نیکی کی ہسے ته پروشٹہ لو دیکو بوئے۔
تتے پنجتن پاکو واسطہ سوال کومان کہ ہتے پاک نفسان صدقا متے تان دروازا حاضیری دیکو سعادتو نصیب کورے۔
ہروش تانچقہ تتے کھربلو شہیدانن واسطہ کہ ہے پاک نفسان صدقا متے تان عظیم دروازاری کیاوت دی دودیری مو کورے۔
مہ آرمان شیر کی مہ غون ناچاروتے حضرت اویس قرنیو قسمہ عشقو دولتاری مالا مال کورے۔ تو مہ درخواسو قبول کورے۔ اوا تہ بندہ اسوم متے معلوم شیر کہ تہ دربارا شونان کیژیبئیکوتے کوستے دی طھاقت حاصل نیکی۔