اک سحرِ سامری کا اثر دیر تک رہا
دھرتی پہ دائروں کا سفر دیر تک رہا
کچھ لوگ زندگی کی سکونت میں قید تھے
کچھ اور جن کو اذنِ سفر دیر تک رہا
دیوار و در کے بیچ کسی روشنی کی آس
زندانیوں کی آنکھ میں گھر دیر تک رہا
کچھ بے گناہ قتل کئے، سرکشوں کے ساتھ
پھر اس کے بعد شاہ کا ڈر دیر تک رہا
ہر چند دھوپ تیز تھی پر سائباں کی یاد
دل میں مسافروں کے شجر دیر تک رہا
لکھے ہیں شعر مرگِ محبت کے بعد بھی
بے روح شاعری کا ہنر دیر تک رہا
چھن جائے گا، ملے گا نہیں، دل نہیں رہا
اک امتحانِ تابِ جگر دیر تک رہا
آکاس بیل لپٹی ہوئی ہے تنے کے ساتھ
اک دلربا کا نام ادھر دیر تک رہا
ماہِ تمام، دل کو، اداسی سے بھر گیا
پونم کی رات غم کا اثر دیر تک رہا
کل شب جنوں میں جو بھی لکھا سب جلا دیا
بکھری جو راکھ رقصِ شرر دیر تک رہا
اک آس، بے طلب سی، تمنا سے ماورا
آباد جس سے دل کا نگر دیر تک رہا