1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. رحمت عزیز خان/
  4. ہتک عزت بل 2024، صحافیوں کو اعتماد میں لیا جائے‎

ہتک عزت بل 2024، صحافیوں کو اعتماد میں لیا جائے‎

ان دنوں ہتک عزت بل 2024 پاکستان کے میڈیا اور قانونی حلقوں میں ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ اس بل کا مقصد جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنا ہے جو کہ کسی کی ذاتی زندگی اور عوامی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ آج کے اس کالم میں ہم اس بل کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کریں گے اور اس کے ممکنہ اثرات پر تنقیدی نظر ڈالیں گے۔

ہتک عزت بل 2024 کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک، اور سوشل میڈیا کے تمام پیلٹ فارمز پر ہوگا۔ اس کے تحت جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں کے پھیلاؤ پر ہتک عزت کا کیس کیا جا سکے گا۔ یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس/ٹوئٹر، فیس بک، اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر بھی اس بل کا اطلاق ہوگا۔ کسی کی ذاتی زندگی اور عوامی ساکھ کو نقصان پہنچانے والی خبروں پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔

قانون کی اہم شقیں مندرجہ ذیل ہیں:

جھوٹی خبروں پر ہتک عزت کے کیسز: اس بل کے مطابق، جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں کے پھیلاؤ پر ہتک عزت کے کیسز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے ٹربیونلز قائم کیے جائیں گے جو 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کے پابند ہوں گے۔

ہرجانہ: ہتک عزت کے کیسز میں مجرم پائے جانے والے شخص یا ادارے کو 30 لاکھ روپے تک کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔

آئینی عہدوں پر موجود شخصیات: آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزامات کی صورت میں ہائیکورٹ بینچ کیس سنے گا۔

خواتین اور خواجہ سرا: خواتین اور خواجہ سراؤں کے کیسز میں قانونی معاونت کے لیے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

اس بل کی حمایت کے ساتھ ساتھ اس پر کھل کر تنقید بھی کی جارہی ہے، بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ جھوٹی خبریں معاشرتی اور سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ قانون میڈیا کی ذمہ داری کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور صحافیوں کو اپنے مواد کی تصدیق کے لیے حوصلہ افزائی کرے گا۔

بل پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزادی اظہار رائے کو محدود کر سکتا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور دیگر صحافتی تنظیموں نے بل پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی جو کہ مسترد کر دی گئی۔ ان کے مطابق، یہ قانون حکومت کو میڈیا پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس بل کے نفاذ کے بعد کچھ عملی مسائل بھی بڑھ جائیں گے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

آزاد صحافت پر اثرات: اس بل کے تحت صحافیوں کو یہ خوف لاحق ہو سکتا ہے کہ ان کی رپورٹس کو ہتک عزت کے قوانین کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے، جس سے وہ کھل کر اظہار خیال کرنے سے گھبرائیں گے۔

عدالتی نظام پر بوجھ: ٹربیونلز کے قیام اور کیسز کے جلد فیصلے کے باوجود، عدالتی نظام پر اضافی بوجھ پڑ سکتا ہے۔

بل کا مبہم اطلاق: جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں کی تعریف مبہم ہو سکتی ہے، جس کے باعث اس قانون کا غلط استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہتک عزت بل 2024 ایک پیچیدہ اور متنازع قانون ہے جس کے حامی اور ناقدین دونوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ اس بل کے تحت جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی آزاد صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

اس لیے اس بات کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہوگا کہ اس بل پر عمل درآمد میں شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس کے مثبت اثرات سامنے آ سکیں۔ امید ہے کہ حکومت اس بل کے نفاذ سے قبل صحافی برادری کے ساتھ مل بیٹھ کر کوئی متبادل حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔