محسن نقوی کی غزل کا یہ مصرع "میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں " میرے آج کے کالم کا عنوان ہے، یہ زیر تبصرہ غزل محسن نقوی کی ایک ایسی تخلیقی اور جذباتی پیشکش ہے جس میں شاعر عشق کی انتہائی گہرائیوں اور لطافتوں کو ایک منفرد انداز میں بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شاعر نے اس غزل میں محبت کی شدت اور آرزوؤں کو علامتی اور تشبیہی انداز میں پیش کیا ہے، جو کہ محسن نقوی کے خاص شعری اسلوب کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔
محسن نقوی کی یہ غزل عشق و محبت کی انمول اور لازوال کیفیتوں کا نمونہ ہے، جہاں عاشق محبوب کو ایسے ٹوٹ کر چاہتا ہے جیسے فطرت کی مختلف قوتیں اور مظاہر ایک دوسرے کے ساتھ غیر معمولی تعلق رکھتے ہیں۔ عشق کی اس خواہش کا اظہار شاعر نے مختلف تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کے ذریعے کیا ہے۔ شاعر عشق کو مہتاب اور سمندر، سورج اور سیپ، خوشبو اور ہوا، جیسے قدرتی عناصر کے درمیان پائے جانے والے تعلق سے جوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور اس اس غزل میں شاعر نے عشق کی پاکیزگی، مخلصی اور بے غرضی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزل میں علامتوں کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات کا بھی استعمال کیا گیا ہے، محسن نقوی اس غزل میں بھرپور علامتی زبان استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ محبوب کو چاہنے کی کیفیت کو "مہتاب کو بے انت سمندر چاہے" جیسی تشبیہ کے ذریعے بیان کرتے ہیں، جو عشق کی وسعت اور لامحدودیت کا اشارہ ہے۔ اسی طرح "سورج کی کرن سیپ کے دل میں اُترے" کی تشبیہ عشق کی پوشیدگی اور روحانی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ شاعر نے "خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے" میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ سچی محبت ظاہری حسن و جمال سے بالاتر ہوتی ہے، اور دل کی سچائی اور اندرونی خوبصورتی پر مبنی ہوتی ہے۔
آپ کی شاعری میں تخیل کے ساتھ ساتھ جذبات کی شدت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ غزل کا مرکزی خیال عشق کی بے پناہ شدت اور اس کی خواہشات کا اظہار ہے۔ شاعر خوابوں اور حقیقت کی سرحدوں کو ملا کر عشق کی حالت کو بیان کرتا ہے۔ "میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا" اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عاشق کی خوابوں میں بھی سچائی اور محبت کا عکس موجود ہے۔ شاعر کا عشق حقیقی ہے، جو خوابوں میں بھی زندہ رہتا ہے اور حقیقت میں بھی اپنی گواہی پیش کرتا ہے۔
غزل میں عشق کی بے خودی اور دیوانگی کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے، غزل کے مختلف اشعار میں عشق کی بے خودی کے ساتھ مکمل دیوانگی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ شاعر کی خواہش ہے کہ وہ محبوب کی پلکوں پر اترتی ہوئی صبحوں کے لیے ستاروں کی طنابیں توڑ کر لا دے، جو عشق کی انتہا کی علامت ہے۔ یہ اشعار شاعر کی طرف سے عشق کے غیر معمولی اور سرمست جذبے کا اظہار ہیں، جہاں عاشق ہر قسم کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے، چاہے وہ کائناتی ہو یا زمانے سے تعلق رکھتے ہوں۔
شاعر نے اپنے فن کو بھی محبت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے فن کا حسن محبوب کی آنکھوں کے گلابوں سے مہکتا ہو نظر آجائے۔ اس خیال میں شاعر کی یہ خواہش جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ اس کا تخلیقی عمل اور فن، اس کے عشق کی گہرائیوں کو ظاہر کرے، اور محبوب کی خوبصورتی سے ہم آہنگ ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محسن نقوی کی یہ غزل عشق کے لطیف احساسات اور گہرائیوں کو علامتی اور تشبیہی انداز میں بیان کرتی ہے۔ شاعر نے فطرت کے مختلف مظاہر کو عشق کی وضاحت کے لیے استعمال کیا ہے، جو اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور فکر کی بلندی کا ثبوت ہے۔ یہ غزل محبت کی عظمت، شدت، بے غرضی اور روحانی پاکیزگی کی نمائندگی کرتی ہے۔ محسن نقوی کا کلام ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ سچی محبت ایک ایسی قوت ہے جو خوابوں، خواہشات، اور حقیقتوں کو جوڑتی ہے، اور یہ عشق فطرت کے مظاہر کی طرح وسیع، گہرا، اور لامحدود ہوتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے محسن نقوی کی غزل پیش خدمت ہے۔
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کوبے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اُترے
جیسے خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دُعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے