1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. رحمت عزیز خان/
  4. مجرم کی بطور سیکیورٹی گارڈ بھرتی

مجرم کی بطور سیکیورٹی گارڈ بھرتی

کراچی جو کہ مملکت خداداد پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز بھی ہے، ہمیشہ سے سیکیورٹی کے مسائل کا شکار رہا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں کراچی میں نسلی اور سیاسی تشدد، دہشت گردی، اور جرائم کی بلند شرحوں نے شہریوں کو مستقل خوف و ہراس میں مبتلا کیے رکھا۔ اسی پس منظر میں سیکیورٹی گارڈز کی خدمات کی طلب میں اضافہ ہوا۔ یہ طلب مختلف اداروں، کاروباری مقامات، اور رہائشی علاقوں میں سیکیورٹی کی ضرورت کی وجہ سے بڑھتی چلی گئی۔ سیکیورٹی کمپنیوں نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں گارڈز کی بھرتی شروع کی۔

حال ہی میں ایک اخباری خبر نے سب کو حیران کر دیا کہ پنجاب کا اشتہاری ملزم وسیم، جو ایک شہری کے قتل کا مجرم تھا، کراچی میں 15 ماہ تک سیکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ ملزم وسیم نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ لاہور سے فرار ہو کر پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی پہنچا۔ کراچی میں اس نے بغیر کسی دستاویزات اور تربیت کے ایک سیکیورٹی کمپنی میں نوکری حاصل کی جو کہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔

یہ واقعہ صرف ایک مثال ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع سیکیورٹی لیپس کی عکاسی کرتا ہے۔ کراچی میں سیکیورٹی کمپنیوں کی اندھا دھند بھرتیوں کے باعث نا صرف شہریوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے بلکہ جرائم پیشہ افراد کو بھی تحفظ فراہم ہو رہا ہے۔

یہ واقعہ کئی اہم مسائل کی نشاندہی کرتا ہے مثلاً:

بھرتی کے عمل کی ناکامی: سیکیورٹی کمپنیوں کی طرف سے گارڈز کی بھرتی کے دوران بنیادی دستاویزات اور شناختی معلومات کی جانچ نہ کرنا سیکیورٹی لیپس کے زمرے میں آتا ہے۔ تربیت کی کمی جو سیکیورٹی گارڈز کو مجرمانہ حرکات سے روکنے اور شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے میں ناکام بناتی ہے۔

سیکیورٹی کمپنیوں کی نگرانی: بہت سی سیکیورٹی کمپنیاں بغیر کسی فزیکل دفتر کے کام کر رہی ہیں، جن کی نگرانی مشکل ہے۔ سپروائزروں کی عدم موجودگی اور ان کے مجرمانہ پس منظر کی جانچ نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہورے ہیں۔

قانونی نظام کی خامیاں: پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے سیکیورٹی کمپنیوں کی مانیٹرنگ اور ریگولیشن میں ناکامی کی وجہ سے آئے دن حادثات ہورہے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کا آسانی سے دیگر شہروں میں پناہ لے لینا اور قانون کی گرفت سے بچ نکلنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر سختی سے عمل کیا جائے:

بھرتی کے عمل کی سختی: سیکیورٹی کمپنیوں کو ہر بھرتی کے دوران مکمل دستاویزات اور شناختی معلومات کی جانچ کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ تربیت کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور ہر سیکیورٹی گارڈ کو تربیتی کورسز مکمل کرنے کے بعد ہی بھرتی کیا جائے۔

نگرانی اور ریگولیشن: سیکیورٹی کمپنیوں کی رجسٹریشن اور نگرانی کے لیے ایک مخصوص ادارہ قائم کیا جائے جو ان کمپنیوں کی فعالیت کو باقاعدگی سے مانیٹر کرے، سیکیورٹی کمپنیوں کے دفاتر اور سپروائزروں کے پس منظر کی جانچ کی جائے۔

قانونی فریم ورک: قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بہتر رابطے اور تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ مجرمین کا آسانی سے تعاقب کیا جا سکے۔ سیکیورٹی کمپنیوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے جو غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث پائی جائیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کراچی میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ان اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ سیکیورٹی گارڈز کی بھرتی میں بہتری، نگرانی کا مضبوط نظام، اور قانونی فریم ورک کی مضبوطی سے ہی شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔