مقبول ذکی مقبول شاعر، ادیب، مبصر اور کالم نویس ہیں، حال ہی میں آپ کی کتاب "منتہائے فکر" کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ اردو سخن لیہ کی طرف سے اس کتاب کو خوبصورت گیٹ آپ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس ادبی کاوش کے صفحات کی کل تعداد 200 ہے۔ اس کتاب میں حمد، نعت اور دیگر شاعری شامل ہے جو کہ شاعر کے دلی جذبات، روحانیت، اور ثقافتی باریکیوں کی گہرائی سے تحقیق پر مبنی بہترین شاعری ہے۔ حمد باری تعالیٰ سے کتاب کا آغاز کیا گیا ہے اور اس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کیا گیا ہے، یہ کتاب شروع سے ہی تعظیم اور احترام پر مبنی شاعری کا حصہ ہے۔ حمد باری تعالیٰ کے یہ اشعار دیکھئیے
سرمد سرمد رہنے والا
واحد اللہ خالق سب کا
قاصر بندہ دیکھ نہ پایا
دل کے اندر مالک اپنا
عالم کا وہ داتا ٹھہرا
رازق سب کا قرآں بولا
مہر و ماہ بھی حمد ہیں کرتے
ٹہنی ٹہنی وِرد ہے ان کا
قلزم ان کا خلق بھی اعلیٰ
ہے مقبولؔ سمجھ سے بالا
کتاب کا سرورق باصلاحیت ڈیزائنر ناصر ملک نے تیار کیا ہے، جیسے ہی کوئی قاری کتاب کے صفحات میں جھانکتا ہے، ان کا استقبال موضوعات کی ایک سیریز کے ساتھ کیا جاتا ہے، جس میں محبت اور خواہش سے لے کر ایمان اور وجودی غور و فکر تک شاعری کو جگہ دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مجموعہ کے اندر ہر شعر ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ نعتِ مبارکہ کے اشعار دیکھئیے
آپﷺ کے دم سے عالم سنوارا گیا
ذکر سے کام بنتا ہمارا گیا
سانس چلنے لگی حق کے پیغام کی
ایسے دل میں عمل کو اُتارا گیا
یہ جو کون و مکاں ہیں سجائے گئے
ہر طرف ہے یہ جلوہ تمہارا گیا
پاک قرآن مدحت سرائی میں ہے
اور ہر اک زمانہ نکھارا گیا
اس قلم سے ہے مقبولؔ عزت ملی
نعت میں مصطفیٰ ﷺ کو پکارا گیا
مقبول ذکی مقبول کے کام کا ایک قابل ذکر پہلو ان کی روایتی شاعرانہ شکلوں کو عصری حساسیت کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے باندھنے کی صلاحیت ہے۔ پوری کتاب "منتہائے فکر" میں بہترین اردو شاعری کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جو جدید تشریحات اور تاثرات سے جڑی ہوئی ہیں۔ پرانے اور نئے اسالیب کا یہ امتزاج اس مجموعے کو ایک لازوال معیار فراہم کرتا ہے، جو روایت پسندوں اور جدت پسندی کے شوقین دونوں کے لیے پڑھنے کی اپیل کرتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئیے
سجدے سے آپؑ کے تو ہر نام بچ گیا ہے
بچ گئے مزار سارے در بام بچ گیا ہے
آنکھوں کے راستے سے روح میں اُتر گئے ہو
دل یہ برائیوں سے ہر گام بچ گیا ہے
کلمہءِ لا اِلٰہ پر ہے آپؑ کی شہادت
بخشا ہوا خدا کا انعام بچ گیا ہے
تیرے لہو سے مولاؑ زندہ ہوئی عبادت
مومن کا عمر بھر کا یہ کام بچ گیا ہے
جلنے لگے تھے خیمے کرب و بلا میں مولاؑ
گلدستہءِ امامت گلفام بچ گیا ہے
ہے جذبہءِ شہادت مومن کے دل میں باقی
تاحشر جو پئیں گے وہ جام بچ گیا ہے
عزت سے چل رہے ہیں سر کو اٹھا کے اپنے
انسانیت کی قدریں اور دام بچ گیا ہے
پرچم بلند تر ہے ہوگا نہ سرنگوں یہ
کہنا یزیدیوں سے اسلام بچ گیا ہے
نوکِ سنان پر بھی ذکرِ خدا ہے جاری
دیکھا جہاں نے حق کا پیغام بچ گیا ہے
قرآں سناں پہ پڑھنا سب کو بتا رہا ہے
ہر خاص بچ گیا ہے ہر عام بچ گیا ہے
مقبولؔ دل میں چاہت ابنِ علیؑ کی ہوگی
مومن کے دل کا درپن صبح شام بچ گیا ہے
مزید یہ کہ "منتہائے فکر" زبان اور ثقافت کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے انسانی تجربے کی ایک پُرجوش عکاسی کا کام کرتا ہے۔ مقبول ذکی مقبول اپنی شاعری کے ذریعے انسانی جذبات کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے خوشی اور غم کے ساتھ ساتھ امید اور مایوسی کی پیچیدگیوں کو سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چاہے محبت کی خوشی کے موضوعات کی تلاش ہو یا علیحدگی کی اذیت، ہر نظم میں ہمدردی اور افہام و تفہیم کا گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجئے
فرمان مصطفیٰ کا تکمیل کربلا ہے
شبیرؑ کا لہو ہے قندیل کربلا ہے
تکلیف سب ملی تھی آلِ رسولؑ کو بھی
مولاؑ کے امتحاں کی وہ جھیل کربلا ہے
تفسیر مل رہی ہے قرآن میں سدا سے
قرآن ہے مفسر تعمیل کربلا ہے
تعظیم ہم کریں گے تصریف ہم کریں گے
تحریر ہے جگر پہ تفضیل کربلا ہے
مقبولؔ ایک جنگل مشہور تھا ازل سے
عاشور کو ہوئی پھر تبدیل کربلا ہے
مزید برآں، مجموعہ کی موضوعاتی وسعت صرف اس کی لسانی فراوانی سے ملتی ہے۔ مقبول ذکی مقبول کی اردو زبان پر مہارت ہر شعر میں عیاں ہے، کیونکہ وہ الفاظ، تال اور استعاروں سے بڑی آسانی سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کی منظر کشی بہترین ہے، اس کے استعارے فکر انگیز ہیں، اور قاری کو ایک ایسی دنیا کی طرف کھینچتے ہیں جہاں ہر لفظ وزن اور معنی رکھتا ہے۔ حضرت امام حسین کے بارے میں کہتے ہیں
مجلس حسینؑ کی ہے
دل کے یہ چین کی ہے
دن رات روئیں گے ہم
مجلس یہ نین کی ہے
درسِ نماز، روزہ
اس فرضِ عین کی ہے
مجلس تو یہ بلاشک
بدر و حنین کی ہے
مقبولؔ یہ نمی تو
آنکھوں کے زین کی ہے
تاہم اپنی جمالیاتی کشش سے ہٹ کر "منتہائے فکر" معاشرے کے لیے ایک آئینہ کا کام بھی کرتا ہے، جو عصری مسائل اور معاشرتی اصولوں پر لطیف تبصرہ پیش کرتا ہے۔ اپنی بہترین شاعری کے ذریعے مقبول ذکی مقبول سماجی انصاف، سیاسی بدامنی، اور انسانی حالت کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور قارئین کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ اپنے عقائد اور اقدار پر غور کریں۔ یہ اشعار دیکھئیے کہ
شہیدِ کربل اے محسنِ دیں یہ نام تیرا چمک رہا ہے
تمام عالم میں خون تیرا قسم خدا کی مہک رہا ہے
جو استغاثہ دیا تھا تو نے وہ یومِ عاشور کربلا میں
صغیرؑ چھ ماہ کا پیاسا اصغرؑ صدا یہ سن کر بلک رہا ہے
عجیب عالم ہے تشنگی کا بدن بھی نیزوں سے پارہ پارہ
اٹھائے شہؑ نے جوان لاشے لہو افق سے چھلک رہا ہے
کٹائے عباسؑ نے جو بازو تو رو دیاتھا وہ علقماں بھی
زمیں سے عرشِ بریں تلک یہ سبھی کو صدمہ کھٹک رہا ہے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مقبول ذکی مقبول کا "منتہائے فکر" محض نظموں کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ادبی سفر ہے جو اردو کی ادبی تاریخ کا حصہ بھی بنے گا۔ مصنف کی طرف سے اس کتاب کے عاجزانہ آغاز سے لے کر اس کی گہری بصیرت تک، یہ کتاب اردو ادب کی اسلامی اور مذہبی شاعری کی پائیدار طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میں شاعر کو اتنی اچھی کتاب لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔