پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال کا حالیہ فیصلہ میرے سامنے ہے جس میں پنشنری فوائد کے بارے میں تفصیلی فیصلہ سنایا گیا ہے تفصیلات کے مطابق سائلہ محترمہ محمد بی بی نے حکومت خیبرپختونخوا اور ڈائریکٹر ایجوکیشن خیبرپختونخوا کو اس مقدمے میں پارٹی بنایا تھا یہ فیصلہ سرکاری کنٹریکٹ ملازمین کے لیے پنشنری فوائد کے بارے میں ہے۔
یہ کیس، رٹ پٹیشن نمبر 3259-P/2022 کے تحت فائل کیا گیا تھا، اس فیصلے میں اس اہم سوال کو حل کیا گیا ہے کہ آیا کنٹریکٹ کی بنیاد پر یا مقررہ تنخواہ پر پیش کی جانے والی سروس کو پنشنری فوائد کے لیے باقاعدہ سروس کے لیے ملازم کے حق کو تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ پشاور ہائی کورث کے جج جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ
In light of the discussion in paragraph No. 6, the judgment delivered in Mir Ahmad Khan's case (supra) is declared to be per incuriam. " 9. The principle expounded is that a civil servant must have completed 10 years of regular service first. In other words, temporary service couldn't be counted for the purpose of pensionary benefits. However, once the 10 years regular service completion is established, the temporary service, then. could be added up towards pension.
اس اہم فیصلے میں پیش کردہ وکلاء کے باریک دلائل کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخی طور پر اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس کیس کی جڑیں سال 1997 سے ملتی ہیں، جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے میر احمد خان کے تاریخی مقدمے میں فیصلہ دیا تھا کہ دس سال سے زیادہ کی عارضی سروس سول سروس ریگولیشنز (CSR) کے آرٹیکل 371-A کے تحت پنشنری فوائد کی حقدار ہے۔ تاہم اس عدالتی نظیر کو 2016 میں چیئرمین پاکستان ریلوے گورنمنٹ آف پاکستان اسلام آباد اور دیگر کے کیس میں فیصلے کے ساتھ جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا، جس نے پچھلے فیصلے کو منسوخ کردیا۔ جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال لکھتے ہیں کہ
It is worth mentioning here that some Division Benches of this court expressed their opinions that contract services were countable towards pensionary benefits. In order to resolve the controversy, a larger Bench was constituted which, in the writ petition of Amir Zeb declared that the completion of the prescribe length of service would, for the purpose of pension, be countable from the first date of appointment and not from the date of regularization of the service. In 2022, the issue also came up before the apex Court in the case of Ministry of Finance through Secretary and others
اس کیس کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ "عارضی قیام" کی تعریف اور پنشن کے حقداروں پر اس کے اثرات کیا ہونگے؟ قانونی فریم ورک میں واضح تعریف کی عدم موجودگی کی وجہ سے لغت کے معنی کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ایک تنظیم یا ادارے کے طور پر "عارضی قیام" کی وضاحت ایک محدود مدت کے لیے مؤثر ہے جو کہ اس کیس کی پیچیدگی کو واضح کرتی ہے۔ جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال مزید لکھتے ہیں کہ
In case، an employee had served a government department for the duration of the period qualifying him to receive pension, the period spent as a contractual employee may be added to his regular qualifying service only and only for the purpose of calculating his pension and for no other purpose. The provisions of Article 371-A of Civil Service Regulations (C. S. R.) started "'ith a non obstante clause which meant that the said Article did not relate to the question entitlement or eligibility to receive pension. It was clearly and obviously restricted to counting the period of a minimum of five years which had been rendered by a temporary contractual employee to be taken into account with the object of calculating the quantum of his pension.
قانونی تشریحات کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قانونی منظرنامہ مختلف تشریحات سے بھرا ہوا ہے۔ اگرچہ کچھ کا کہنا ہے کہ کنٹریکٹ کی خدمات کو پنشنری فوائد میں شمار کیا جانا چاہئے، حالیہ عدالتی فیصلوں نے اس معیار کو برقرار رکھا ہے۔ سیکرٹری اور دیگر کے ذریعے وزارت خزانہ کے معاملے میں بیان کردہ رائے اس تصور کو تقویت دیتی ہے کہ کنٹریکٹ سروس کو صرف پنشن کا حساب لگانے کے لیے ہی سمجھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ سرکاری ملازم نے دس سال کی آزادانہ سروس مکمل کر لی ہو۔ جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ
Most recently، vide its opinion dated 14/02/2023 recorded in the case of Inayat Khan this court has observed: decided on 14/02/2023 has held that: Being based upon the interpretation of Article 371A of C. S. R made by the apex Court; it is concluded that the service rendered on contract followed by regularization could only be counted for pensionary benefits provided the civil servant has completed qualifying ten years' service independently. Thus, the contention of learned counsel for petitioner for addition of service of the petitioner rendered on contractual side in the service rendered by him after his regularization for pensionary benefits is misconceived.
اس قانونی بھولبلیوں کے درمیان کئی اصول ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ پنشن کے حقدار ہونے کی شرط کے طور پر دس سال کی باقاعدہ سروس مکمل کرنے کی اہمیت کو ترجیع دی جائے۔ عارضی سروس اگرچہ وسیع ہے لیکن اس تناظر میں وہ عارضی ہی رہتی ہے۔ دوم یہ کہ سروس کے آغاز کا وقتی پہلو پنشن کے حساب کے لیے سروس کے آغاز کی وضاحت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ عامر زیب کے مقدمے کے معاملے میں فیصلہ اس سلسلے میں ایک عدالتی مثال قائم کرتا ہے، جس میں سروس کے آغاز کو معیار کے طور پر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
ملازمین سے متعلق قانونی پیچیدگیوں کو سامنے لانا اور ان مسائل کی وضاحت کرنا ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے۔ جیسے جیسے قانون کا ارتقا ہوتا ہے، فیصلہ کے لیے ایک مربوط فریم ورک فراہم کرنے کے لیے نظیروں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی مداخلت یا یکساں اصولوں کو واضح کرنے والے عدالتی فیصلے ابہام کو کم کر سکتے ہیں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محترمہ محمد بی بی کا کیس بمقابلہ حکومت خیبر پختونخوا اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنشن کے حقداروں کے لیے قانونی تشریحات اور انتظامی طریقوں کے درمیان پیچیدہ مسائل کو سامنے لاتا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سرکاری ملازمین کے حقوق اور استحقاق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے قانونی فیصلے میں وضاحت، مستقل مزاجی اور انصاف پسندی کے تقاضوں پر زور دیتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کی دیگر لوئر اور ہائر جوڈیشری کے ساتھ ساتھ سروسز ٹریبونلز بھی ملازمین سے متعلق مقدمات کو جد نمٹانے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔