ڈینگی مہلک وائرل انفیکشن ہے۔ جو ابھی تک جڑ سے ختم نہیں ہو سکا اور ماہرین کے مطابق اس کے لیے احتیاطی تدابیر اور صفائی سے بڑھ کر کوئی کارگر علاج نہیں۔ حکومتی سطح پر ڈینگی کے روک تھام اور اس سے بچاو کی تدابیر پر عملدرآمد کے لیے باقاعدہ محکمہ موجود ہے۔ جہاں تمام محکمہ جات سے رپورٹس لی جاتی ہیں۔
صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر اس حوالے سے "بیداری شعور" پر زور دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انفرادی شعور اور احساس ذمہ داری کے بغیر اجتماعی ترقی محض خواب ہوگی۔ یوں تو ڈینگی کی روک تھام کے لیے مختلف علاقوں میں ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ لیکن یہ ذمہ داری چند لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ کیسے اور کیونکرکے سوالات ہر لمحہ موجود رہتے ہیں۔ لیکن یہ خوش آئیند ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں بھی باشعور اور زمینی حقائق کو سمجھنے والے دانشور موجود ہیں۔
خواجہ عمران نذیر سمجھتے ہیں کہ عقل و دانش کے دریا کا عوام تک پہنچنا بنیادی مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑ رہی لیکن مانیٹرنگ ٹیمیں بڑھانے کی بجائے انفرادی مانیٹرنگ اور خود احتسابی کو اجاگر کرنا زیادہ ضروری ہے۔ خواجہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ محکمہ جاتی سطح پر ڈینگی ایکٹیویٹیز کے نام پر رپورٹ یا تصاویر بھیجنے یا جمع کروانے سے مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اصل اہمیت صفائی کی ہے جو نصف ایمان بھی ہے۔ صفائی کو نظر انداز کرکے محض تصاویر بنانے کا عمل جان چھڑوانے کا طریقہ ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس تصویری کلچر کا رواج چل نکلا ہے۔ وہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔ یہی رویہ ویڈیوز کے ساتھ بھی ہے۔ الزام تراشی اور دوسروں کو دیکھ کر چور چور کے نعروں نے حواس مختل کر رکھے ہیں۔ تشویش ہے کہ
آواز حق کہیں اب روپوش ہو نہ جائے
حرف غلط برہنہ تلوار ہو رہا ہے
منت گہ سیاہی اعلان خیر خواہی
کم ظرف ولولوں کا اظہار ہو رہا ہے
خواجہ عمران نذیر جہاں ایک طرف کینسر جیسے موذی مرض کی ادویات میں کمی پر نوٹس لیتے ہیں وہاں ادھ ادھورے شعور کے اس دماغی کینسر پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ دوسروں کا گریبان پکڑنے، دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے، دوسروں کے خلاف خبریں اور درخواست دینے کے کلچر کو فروغ نہ دیا جائے۔ اپنی کاہلی، نا اہلی اور اخلاقی کم زوریوں کو طعن و تشنیع کے پردے میں چھپانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہر ایک کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ تصویر کے ٹکڑے لے کر دوسروں کی اہلیت پر سوال اٹھاتا پھرے۔ انھوں نے بار بار انفرادی شعور پر زور دیا۔ جب تک انفرادی سطح پر اصلاح کا عمل فروغ نہیں پائے گا ملکی ترقی کی تعبیر کم زور رہے گی۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بنیادی طور پر خواجہ عمران نذیر کا پیغام یہ تھا کہ ہر محکمہ سے لے کر ہر گھر اور ہر فرد میں احتجاجی مظاہروں کا حصہ بننے کی بجائے اپنے فرائض کی بجا آوری کا شعور اجاگر کیا جائے۔ ہرفرد ملت کے مقدر کا ستارہ بننے کی کوشش کرے۔ انھوں نے مانیٹرنگ ٹیمیں بڑھانے کی بجائے رضاکارانہ طور پر لوگوں کو ساتھ ملانے کی تجویز دی۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ہر علاقہ سے لوگوں کو رضاکارانہ طور پر آگاہی مہم میں شامل رکھا جائے اور ان کے ساتھ میٹنگ بھی کی جائے۔ ان رضاکاروں سے عزت و احترام کا رویہ رکھا جائے۔
یہ رضاکارانہ کلچر جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی موجود ہے جہاں ریٹائرڈ لوگ بھی سماجی خدمت میں اپنا حصہ ڈالنے اور آنے والی نسل کو یہ اعتماد دینے میں مصروف کار ہیں کہ ان کے گرد اپنے لوگ موجود ہیں جن پر وہ اعتماد کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ کو اس تبدیلی کی اشد ضرورت ہے تا کہ دریا کے تازہ بہتے پانی میں جوہڑ کا تعفن زدہ پانی نہ شامل ہو جائے۔ احتجاجی مظاہروں نے بے عملی کو فروغ دیا ہے۔
خواجہ عمران نذیر بداخلاقی کے اس کلچر کو ڈینگی سے زیادہ مہلک سمجھتے ہیں۔ معاشرہ میں پھیلتا عدم برداشت کا یہ رویہ وہ مرض خباثت ہے جس پر قابو پانا کسی مانیٹرنگ ٹیم کے بس میں نہیں۔ گلی محلوں میں کھڑا پانی خشک کیا جا سکتا ہے لیکن بے شعوری پر مبنی رٹے بازی کا یہ سریع الاثر زہر پھیلتا جا رہا ہے۔ خواجہ عمران نذیر نے یہ بھی کہا کہ ڈینگی لاروا نکلنے سے، ڈینگی کےکیسز رپورٹ کرنے سے یا کسی بھی بیماری کی تشخیص سے گھبرانےکی ضرورت نہیں۔ یہ ایکٹو اور موثر کارکردگی کی علامت ہے۔
ہذیان اور بد زبانی کے بجائے علاج اور حل کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس عمل کو موثر بنانے کے لیے ٹیم ورک ضروری ہے۔ ہر فرد اپنی کارکردگی سے ٹیم ورک کو تقویت دے۔ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے اور افراد مل کر قافلہ بنتے ہیں۔ انھوں نے ڈینگی، صفائی اور مانیٹرنگ کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنانے کی ہدایت کی تا کہ کم وقت میں لوگوں کی رہنمائی بھی ہو سکے اور ان میں احساس ذمہ داری بھی فروغ پا سکے۔
ڈینگی کے محکمہ کی طرف سے یہ معلومات تقویت دیتی ہیں کہ گزشتہ اعداد و شمار کی نسبت ڈینگی کے کیسز میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ہر گھر اور ہر محلہ کی صفائی حکومت یا کسی ایک ادارہ کی ذمہ داری نہیں۔ کاش ہمارے لوگ بھی سیاسی نظریات کو الزام تراشی کے بجائے انسان دوستی کے لیے استعمال کریں۔ امید رکھتا ہوگی کہ وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں کہ یہی تو وقت ہے سورج کے نکلنے کا۔