1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. نہ بھاگا جائے ہے ہم سے، نہ ٹھیرا جائے ہے ہم سے

نہ بھاگا جائے ہے ہم سے، نہ ٹھیرا جائے ہے ہم سے

کبوتر اور کبوتری نے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے گدھ اور سانپ سے دوستی کی اور شکاری کو مار بھگایا۔ ایک اور کہانی میں شکاری کے جال میں قید کبوتر دانا کبوتر کی بات مان کر جال سمیت اڑ گئے۔ کہیں کوا کنکر گڑھے میں ڈال کر پانی پی لیتا ہے اور کہیں چغل خور گھر کے گھر اجاڑ دیتا ہے لیکن زندگی کی کہانی بڑی پیچ دار ہے، یہاں سانپ سے زیادہ زہر شکاری میں ہے، اس کے ہاتھ میں ایسی ٹارچ ہے جس سے وہ لمحوں میں ماضی سے حال کا جال بن سکتا ہے، جس میں کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ، چڑیا سے لے کر درندے بھی قید رکھ سکتا ہے اور ہمارے پاس وہ دانا کبوتر بھی نہیں جو ہمیں جال سمیت پرواز پہ مائل کرے، ہم نے سب کہانیاں پڑھ رکھی ہیں لیکن سوچ کی پرواز جال کے دھاگوں میں الجھی ہے اور ہم دانہ سمجھ کر پتھروں کے ٹیکس سے جال بھاری کیے جا رہے ہیں۔

مذہب کی شناخت نے ہمارے دماغ "لال پیلے" کر دیے ہیں اور جال میں قید پرندے مذہب کے نام پر قصائی بن چکے ہیں، ہر بار وہی سانحہ، حادثہ یا واقعہ کے ذریعہ نئے انداز سے نقب لگتی ہے، راہزن کبھی مخبر اور کبھی امین بن کر انسانیت کو قربان کرتے ہیں۔ کربلا کی یاد میں کتنے ہی گھروں میں کربلا منعقد کیا جاتا ہے جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ نوحہ گر ماتم مناتے ہیں اور ایک نئے سانحہ کی بنیاد رکھتے ہیں، جس کا دل چاہے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر صوفی بن جائے، جو چاہے عالم بن جائے، ایسا زہد جنم لے رہا ہے جس کے لیے پارسائی کی شرط بے معانی ہے۔

ہمیں مذہب سے سروکار بھی نہیں، مذہب اور انسانیت کی تزئین گویا بیوٹی پارلر سے منسلک کر دی گئی ہے ایمان کم زور ہو تو کوئی بات نہیں، اخلاق سرے سے معدوم ہو تو بھی چلے گا۔ انسانیت کی رمق بھی نہ ہو تو بھی قابل قبول ہے لیکن مذہب کا ہتھیار اٹھانا ضروری ہے، دوسروں پہ اپنی پارسائی کا ڈھونگ اس انداز سے طاری کرنا کہ وہ سمٹ کر رائی بن جائے۔ ادبی سیاست، تعلیمی سیاست، گروہی سیاست، فرقہ بندی اور نسل پرستی کی سیاست میں ہر گروہ جنگل کے اصول پر اپنی بقا کے لیے سرگرم ہے۔ وہ شیر نہیں لیکن ڈبنگ dubbing سے شیر کی طرح دھاڑتا ہے اور اندھے معتقدین روشن خیالی کو کفر سمجھتے ہیں۔ اجتہاد کو بدعت اور سوچ کے نئے زاویوں کو بے حیائی کا نام دے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ یہ لڑائی کبھی جنس کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے اور فیمینزم کے طعنہ کو ہتھیار بنایا جاتا ہے۔

یہاں دانش ور حیا دار اور بے حیا عورتوں کی تخصیص کے لیے نت نئے فارمولے وضع کرتے ہیں۔ کہیں"میرا جسم میری مرضی" کو لبرل لباس پہنا کر جوتیاں برسائی جاتی ہیں اور کہیں میرا عقیدہ میری مرضی کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دانش ور کہتے ہیں کہ عورتوں کی دستیابی نے انھیں ارزاں کر دیا ہے لیکن ایف آئی آر کی کہانی کچھ اور ہی کہہ رہی ہے۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ مرنے والوں کا لہو اتنا ارزاں کیسے ہوا۔ اس پر سارے فارمولے ابھی راستے میں ہیں۔ ہر جگہ ایمان کی ٹافیاں بانٹی جا رہی ہیں اور یہ بھی تاکید ہے کہ اس کا ریپر نہیں کھولنا۔ وہ ایمان جو ابھی پختہ نہیں اس کے بھرشٹ ہونے کا خطرہ بے خطر ایسی آگ میں کود جانے کا اشارہ دیتا ہے جو ہر طرف پھیلائی جا سکتی ہے۔ مسلک، فرقہ اور گروہ میں ہم نے جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیاست سیاست کے کھیل میں دانش ور گدھ کو خوب صورت لبادہ پہنا کر شاہین ثابت کرنے پہ تلے ہیں۔

شخصیات کا کرژما اور سحر طاری کرنے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ مزاحیہ انداز میں چیختے سیاست دان کے تدبر کو ہوا بتایا جاتا ہے لیکن مرنے والوں کو انسان ثابت کرنا کس قدر دشوار ہو چکا ہے۔ جنگل کے اس قانون کا سب سے بڑا اژدھا ٹیکس کا نفاذ ہے۔ ہر شہری کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس ادا کر رہا ہے لیکن حکومت وقت پھر بھی ٹیکس نیٹ کا نظام متعارف کروانے پر مصر ہے اس نظام کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے لوگ دوسرے راستے اپناتے ہیں، لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے انھیں اعتماد میں لانا زیادہ ضروری تھا، جبکہ حکومت آگاہی مہم کے بجائے مہم جوئی پر آمادہ ہے۔

موجودہ حکومت آج اگر سیٹوں پر براجمان ہے تو صرف اپنے ان بلند و بالا نعروں اور وعدوں کی بدولت ہے۔ عوام کے دلوں سے کھیلنے والوں نے بھی سابقہ انتظامیہ کی طرح سیاسی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اسی لیے ٹیکسوں کا یہ جال زراعت، تھوک اور رئیل اسٹیٹ کو بغیر ٹیکس کے یا کم ٹیکس کے چھوڑ رہا ہے۔ یہ بڑی مچھلیاں تالاب کی چھوٹی مچھلیوں کو نگل رہی ہیں۔ اس مالی سال کے نتائج بھی گزشتہ مالی سال سے بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

اب ذرا نظر عالمی منظر نامے پر دوڑائیں۔ جہاں کینیا کی پارلیمان نے ملگ گیر احتجاجی مظاہروں کے باوجود نئے ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری دی تو احتجاج پرتشدد ہوگیا۔ جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور آگ بھی لگائی گئی۔ چند مظاہرین نے پارلیمان کے اختیار کی علامت سمجھا جانے والا عصا بھی چرا لیا۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک نے بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ مانے جانے والے افریقی رہنماؤں میں سے ایک کو اپنے ہی بجٹ کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کہانی بڑی مختصر اور سادہ سی ہے۔ جنگل میں شکار پر نکلنے والے شکاری کو شکار کرنا ضروری ہے ناکہ سانپ مارنا۔ آگے جو عوام کی مرضی۔