1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سلال بلوچ/
  4. ہولی

ہولی

ہولی کا تہوار خوشیوں کا تہوار مانا جاتا ہے جو ہر سو، ہر رنگ میں نئی نئی خوشیاں اپنے ساتھ لاتا ہے جونہی ہولی کا مہینہ شروع ہوتاہے ہر ہندو یاتری اپنے آنگن کو رنگوں سے بکھیر کر موسم بہار کو خوش آمدید کہتا ہے۔
آجکل صرف ہندو مت کے ماننے والے ہی نہیں بلکہ خاص و عام ہر قومیت سے تعلق رکھنے والے افراد ہندومت سے خیرسگالی کے جزبات بلند کرتے ہوئے ہولی کھیلتے ایک دوسرے پر رنگوں کی پچکاریاں مارتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بھی قومی و عوامی سطح پر کئی قسم کے ہولی فیسٹیولز کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں نہ صرف اقلیتی ہندو بلکہ خود پاکستانی مسلمان ان سے اظہار اتحاد و یکجہتی کے لئیے ان کے ساتھ مل کر ہولی کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر مسلمان پاکستان کا ان ہندئووں کے ساتھ ہولی کا جشن مناتا ہے مگر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں اور امن و ضوشحالی کے ساتھ ہولی کی رنگارنگ تقریبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دوسری طرف اگر بھارت کا تذکرہ یا جائے تو وہاں ہندو اکثریت میں ہیں، ہندوئووں کی ہی حاکمیت ہے اور ہندو ہی براجمان ہیں، اور دیگر اقوام اقلیتوں میں موجود ہیں۔ بھارت میں تو موسم بہار کے موقع پر پورا دیش چاروں اطراف رنگوں میں سجا ہوا نظرآتا ہے ہر گلی، محلہ، اسکول، کالجز، آفسز اور دیگر جگہیں اسی طرح رنگ برنگی نظرآتی ہیں۔
جہاں صرف ہندو ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیں بھی ہولی مناتی نظرآتی ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد اس سال ۲۰۱۹ کی ہولی کا اگر جائزہ لیاجائے تو وہ بھارتی وہ ہندو جو مودی جی کی سربراہی میں پاکستان کو آتنگ وادی اور خون خرابے والی ریاست سمجھتے ہیں ان کے ہی کچھ ہندو پسند تنظیم کے کارندوں نے عین ہولی کے خوشیوں بھرے، رنگوں بھرے دن ایسی زبردست خون کی ہولی کھیلی کے شدت پسندی بھی شرما گئی ہوگی، آج سے پہلے بھی بھارت میں لاکھوں ہولیاں کھیلی گئیں، مسلمانوں کو کہیں نہ کہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر یہی فرسودگی کی رسم آج تک ختم نہ ہوسکی، گذشتہ ۱۲ سالوں میں جو ہندو ہر قدم مسلمانوں کے ساتھ ہر تہوار منارہے تھے وہی آج ایک بار پھر پلوامہ حملے کے بعد سر چڑھ کر تشدد کے رواج کو چڑھاوا دے رہے ہیں۔
ہولی کے دن شدت پسند ہندو تنظیم کے کارکنان نے ملک بھر میں چن چن کر ہولی نا کھیلنے والے مسلمانوں کوگھروں میں گھس گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا، جس میں صرف مرد، لڑکے اور معصوم بچے ہی نہیں بلکہ عورت ذات کو بھی انکی ردائیں چھین چھین کر مارا گیا، ہاتھوں، لاتوں، جوتوں بلکہ بھاری بھرکم ڈنڈوں سے لہولہان کردیا گیا، زخمیوں میں سے کچھ افراد کی حالت نازک بھی ہے لیکن بھارتی ریاست اور انکے نیتا شری مودی جی اور انکے چیلو ں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیا کوئی ہولی ایسی خون کی بھی ہوسکتی ہے جس میں افراد کی جان اور انکے خون سے زیادہ ایک تہوار نہ کھیلے کی سزا مانی جاتی ہے اور اس سزا کے عوض بیچارے اپنی جانوں سے ہی یاتھ دھو بیٹھیں؟؟؟ کیوں آخر وجہ کیا ہے؟ کیا اس قدر ہندوّں کی غنڈہ گردی ہر سو پھیلی رہے گی؟ ان زخمیوں کا آخر یہی قصور ہے نا کہ وہ مسلمان میں؟؟؟ جی ہاں؟؟؟ شاید اگر انکا یہی قصور ہے تو میرا سوال حکام بالا سے اور بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے ان افراد سے ہے جو شاید یہ بھول گئے کہ انکو بھی مرنا ہے خدا کے حضور جواب طلبی کرنی ہے؟ کیا قومیت کا جزبہ انسانیت کے جزبے سے زیادہ بڑھ گیا ہے؟