رمضان المبارک میں راشن کی تقسیم کا سلسلہ سرکاری سطح پر بھی جاری ہے اور نجی سطح پر بھی، مختلف تنظیموں اور این جی اوز کی طرف سے غربت کی چکی میں پسے عوام کے لیے رمضان پیکج تقسیم ایک مثبت قدم ہے۔ آج جب اس قوم پر غربت کے بادل انتہائی گہرے ہو چکے ہیں اور سیاست دان اپنی باریاں لینے اوراپنے بچوں کا سیاسی مستقبل محفوظ کرنے میں مصروف ہیں، ایسے میں اس طرح کے اقدامات کی اشد ضرورت تھی۔
رمضان پیکج جس کا حجم وزیر اعظم نے سات سے بڑھا کر بارہ ارب کر دیا ہے، اس کی ترسیل کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت ہونی چاہیے تھی مگر یہاں حکمران تو بے حس تھے ہی، عوام بھی دو قدم آگے نکلے۔ جن علاقوں میں بھی رمضان پیکجز دیئے جا رہے ہیں وہاں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں بھی جاری ہیں۔ اس معاملے میں حکومت سے زیادہ عوام پر افسوس ہے، ایسے لوگ بھی رمضان پیکج کی وصولی کے لیے دھکم پیل میں مصروف تھے جنھیں خدا نے ان کی اوقات سے بڑھ کر نوازا ہے، جنھیں رمضان پیکج وصولنے کی بجائے تقسیم کرنے چاہیے تھے۔
اسی لیے نے پہلے عرض کی کہ رمضان پیکج کی تقسیم ایک مثبت عمل ہے مگر اس میں بے ضابطگیوں سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ یہ عمل سیاسی نہیں ہے لہٰذا اس میں ایک نیوٹرل کمیٹی بنائی جاتی جو کسی بھی طرح کے سیاسی رسوخ سے بالاتر ہوتی تاکہ انصاف سے رمضان پیکجز تقسیم ہوتے۔
حکومتی بنچوں پر تنقید کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو اربوں روپے ہم ہر سال رمضان پیکجز پر لگاتے ہیں، وہ سرمایہ کاری پر خرچ کیے جائیں اور لوگوں کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ غریبوں کو رمضان کی بجائے باقی گیارہ مہینے بھی دو وقت کی روٹی ملتی رہے۔
پاکستان میں مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اسے واپس لانے کے لیے کسی بھی سرکار کو کم سے کم دس پندرہ سال درکار ہوں گے، ایک عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی انتہائی مشکل ہو چکی ہے، ہم رمضان میں تو غریب کا سوچتے ہیں، باقی گیارہ مہینے کیوں نہیں سوچتے؟ ہماری حکومتیں صرف رمضان میں ہی ایسے پیکجز کا کیوں اعلان کرتی ہیں، گزشتہ پندرہ بیس سال یہی دیکھا گیا، جب جب رمضان آتا ہے، سستے بازار بھی لگ جاتے ہیں اور راشن کی تقسیم بھی شروع ہوجاتی ہے، بس دکھ یہ ہے کہ جب پوری دنیا میں رمضان کے احترام میں چیزیں سستی کر دی جاتی ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہر چیز کی قیمت دگنی ہو جاتی ہے۔
رمضان کا مہینہ شروع ہوتی ہی اشیائے خورد و نوش اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، ہمارے پاس کوئی چیک ایند بیلنس نہیں، ہم رمضان بازار لگاتے ہیں مگر چیزیں وہاں بھی مارکیٹ ریٹ پر ملتی ہیں۔ ہمارا سرمایہ دار صدقہ، زکوۃ اور خیرات میں بھی پہلے نمبر پر ہے اور رمضان میں لوٹ مار کرنے میں بھی پہلے نمبر پر۔ دنیا میں بھر رمضان کے احترام میں مسلمانوں کے لیے سہولیات پیدا کی جاتی ہیں جب کہ ہمارے ہاں سرکاری رمضان پیکجز میں بھی بے ضابطگیاں ہوتی ہیں۔
پرائیویٹ این جی اوز اور تنظیمیں جنھوں نے رمضان کے نام پر پوری دنیا سے پیسہ اکٹھا کیا ہوتا ہے، ان کی طرف سے بھی کرپشن کی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں، اسی لیے اس بابرکت ماہ میں تنظیموں کو عطیات دیتے ہوئے یہ تسلی ضرور کریں کہ آپ کا دیا ہوا پیسہ کہاں لگ رہا ہے۔ ہمیں اس ساری صورت حال کو ایک دوسرے اینگل سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے یہ زیادہ بہتر نہیں کہ ہم ہزاروں غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کی بجائے صرف پچاس لوگوں کی ذمہ داری لے لیں، انھیں کوئی چھوٹا سا کاربار بنا دیں، سبزی یا فروٹ کی ریڑھی لگا دیں، کسی چوک میں کوئی ڈھابہ لگا دیں، کسی بیوہ کو گھر میں چھوٹی سطح کا کاروبار بنا دیں، اس عمل سے غریب کو ایک صرف سال نہیں بلکہ پورے بارہ ماہ دو قت کی روٹی میسر آ سکے گی۔
آپ خود اندازہ کریں کہ اگر ایک این جی او دس کروڑ روپے کا راشن تقسیم کرتی ہے، یہی دس کروڑ اگر غریبوں کے روزگار پر خرچ کیے جائیں تو کتنی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صدقہ و خیرات دینے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے مگر یہاں کوئی میکانزم نہیں ہے، رمضان آتا ہے تو ہزاروں ایسے لوگ بھی لائنوں میں لگ جاتے ہیں جن پر خدا کا شکر ہے۔ ہماری حکومتیں راشن کی تقسیم کی بجائے اپنی تشہیری مہم میں مصروف ہیں، انھیں اس بات سے تو غرض ہے کہ آٹے کا تھیلا دیتے ہوئے ان کی تصویر بن جائے، گھر گھر ان کے لیڈر کی تصویر پہنچ جائے مگر اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ یہ قوم کب تک قطاروں میں لگ کردو وقت کی روٹی حاصل کرے گئی، لنگر خانے اپنی جگہ اہم سہی مگر کیا اس تلخ حقیقت سے کنارا ہو سکتا ہے کہ ہم صرف ایک ماہ غریبوں کے لیے سوچتے ہیں، باقی گیارہ ماہ انھیں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم رمضان میں سرکاری اور نجی تشہیری مہم کا حصہ تو بن جاتے ہیں مگر آج تک اس بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا کہ یہ لوگ گیارہ ماہ کیا کھاتے ہیں، بیوہ اپنے بچوں کا پیٹ گیارہ ماہ کیسے پالتی ہے۔ ہمیں رمضان میں ضرور خیرات کرنی چاہیے مگر ہمیں اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کے لیے پورا سال جاگتے رہنا چاہیے جن کی زندگی انتہائی تلخ ہے۔ ہمیں اپنے طور پر اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ غریب صرف رمضان میں ہی غریب ہوتا ہے۔
ہم ایک طرف سرکار پر تو تنقید کر رہے ہیں کہ وہ تشہیری مہم سے باز رہیں مگر جب یہی کام ہماری پرائیویٹ این جی اوز کرتی ہے تو ہم خاموش رہتے ہیں، اپنی تشہیری مہم کی خاطر کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ بہت کم ایسی تنظیمیں ہیں جو تشہیر اور نمود و نمائش سے بالاتر ہو کر غریبوں کے لیے سوچتے ہیں۔