1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. ضمیر حسن قیس کی منفرد اسلوب کی شاعری

ضمیر حسن قیس کی منفرد اسلوب کی شاعری

ضمیر حسن قیس کا تعلق ملتان سے ہے، غزل اور نظم کے شاعر ہیں۔ ان کی ایک منفرد اسلوب کی نظم "یثرب" نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ یہ نظم پانچ حصوں پر مشتمل ہے، جو مختلف تاریخی مراحل اور تہذیبی ارتقا کو بیان کرتے ہیں۔ ہر حصہ نہ صرف ایک تاریخی حوالہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس میں گہری فکری اور ادبی معنویت بھی موجود ہے۔

نظم میں یثرب کے مختلف ادوار کو بیان کیا گیا ہے، جن میں بائدہ، عمالقہ، ترکِ سبا، قنطورا اور مبعوث شامل ہیں۔ شاعر نے تاریخی معلومات کو نہایت باریک بینی سے پیش کیا ہے، جس میں یثرب کی ابتدا، عمالقہ کی آمد، بنی اسرائیل کا قیام اور عرب قبائل کا عروج شامل ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

بائدہ:

یہاں یثرب کے ابتدائی باشندوں اور ان کے تمدنی ارتقا کا ذکر کیا گیا ہے۔ شاعر نے سام بن نوح کی نسلوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے کفر و الحاد کی نشاندہی کی ہے، جو انسانی سرکشی اور زوال کی علامت ہے۔

عمالقہ:

عمالقہ کی سخت جانی اور ان کے معاشرتی اختلافات کو شاعر نے انتہائی مہارت سے بیان کیا ہے۔ موسیٰ کلیم اللہ اور بنی اسرائیل کی آمد کے تاریخی واقعات کو بھی نظم میں جگہ دی گئی ہے۔

ترکِ سبا:

اس حصے میں سیلِ ارم کے باعث سبا کے لوگوں کی ہجرت اور یثرب میں ان کے قیام کا ذکر ہے۔ شاعر نے اس واقعے کو انسانی ہجرت اور تہذیبی ملاپ کے زاویے سے پیش کیا ہے۔

قنطورا:

اس حصے میں شاعر عورت کی عزت، غیرت اور قبائلی روایات پر تنقید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ قنطورا کی خودکشی ایک علامتی احتجاج ہے، جو اس وقت کی سماجی گراوٹ کو اجاگر کرتا ہے۔

مبعوث:

آخری حصہ یثرب میں شاعر نے قبائلی جنگوں اور رسول اللہ ﷺ کی آمد کے نتیجے میں امن و سکون کے قیام کو بیان کیا ہے۔ یہ حصہ امید اور روشنی کی علامت ہے۔

نظم کی زبان، تشبیہات، استعارے اور بیانیہ انداز اسے ایک اعلیٰ ادبی تخلیق بناتے ہیں۔

شاعر نے تاریخ کو شعری پیرائے میں پیش کرنے کے لیے بہترین استعارے بھی استعمال کیے ہیں۔ مثلاً "سیلِ ارم کی فصیل" انسانی کمزوری اور قدرت کے قہر کی علامت ہے۔

نظم کا ہر حصہ ایک مکمل کہانی پیش کرتا ہے، جو تاریخ اور تہذیب کے مختلف ادوار کو مربوط انداز میں جوڑتا ہے۔

شاعر نے مختلف تاریخی ادوار کی زبان اور اسلوب کو مہارت سے اپنایا ہے، جو نظم کو مزید مستند اور مؤثر بناتا ہے۔

نظم میں تاریخ کے ذریعے انسانی زوال، سماجی گراوٹ اور اخلاقی اقدار کے انحطاط کو نمایاں کیا گیا ہے۔

بائدہ اور عمالقہ کے حصوں میں انسان کی سرکشی اور خدا سے دوری کا ذکر ملتا ہے۔

ترکِ سبا اور قنطورا کے حصے تہذیبوں کے ملاپ اور اختلافات کو اجاگر کرتے ہیں۔

مبعوث کے حصے میں رسول اللہ ﷺ کی آمد کو ایک نئی صبح کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو ظلم و جبر کے خاتمے اور امن کے قیام کی علامت ہے۔

اس نظم میں شاعر یثرب کی تاریخ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں، جیسے ظلم، ناانصافی اور امن کے قیام، پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ شاعر نے تاریخ کو محض بیان نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعے قاری کو غور و فکر کی دعوت بھی دی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ نظم "یثرب" ایک ادبی شاہکار ہے، جو تاریخ، تہذیب اور انسانی اخلاقیات کا گہرا مطالعہ پیش کرتی ہے۔ شاعر نے نہایت مہارت سے مختلف تاریخی واقعات کو شعری پیرائے میں بیان کیا ہے، جو قاری کو ماضی کے ساتھ جڑنے اور حال سے سبق لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ نظم ادب، تاریخ اور فکر کا حسین امتزاج ہے، جو اردو شاعری میں ایک منفرد مقام کا حقدار ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ان کی نظم "یثرب" پیش خدمت ہے۔

۔۔ یثرب۔۔

نظم یثرب، پانچ حصوں اور بحور پر مشتمل ہے

۔۔ بائدہ۔۔

ارضِ بابل ترے اطراف کی سرسبز زمیں
قریہِ سوق الثمانینِ قرودی جس پر

کشتیِ نوح سے اترے ہوئے اس٘ی افراد
وحشت و مشکل و ہجرت زدہ، طوفان کے بعد

نیم آباد سی وسعت میں بھی دس دن کی مسافت کا تھا طول
عرض، کے میل تھے بارہ کے قریب

پھیل کر ہو تو رہے تھے سبھی باہم لیکن
خود کو نمرودیء کنعان کا محکوم کئے

ہوگئے سرکشی میں کفر کی عادات میں غرق
سام بن نوح کے بیٹوں کی وہ نسل

طسم و عملیق و جدیس و عَبَل و عاد و ثمود
سب سے پہلے تھے جو حجفہ کی سکونت والے

عرب العاربہ کے پہلے قبائل کا وجود
جس جگہ پر ہوا ویران سے گنجان یہاں

یہ وہ خطہ تھا کہ یثرب کا جسے نام ملا۔۔!

۔۔ عمالقہ۔۔

وہ بنو سعد و بنو ارزق بنو مطروق و ہف
لوگ سارے سخت گیر و سخت جسم و جان تھے

تیما سے لے کر فدک تک کے سبھی سرسبز باغوں پر محیط
ترک کرکے اتحاد و انس آپس میں گریباں دست تھے

اس طرف
موسیٰ کلیم اللہ نے فرعون کو دے کر شکست

ایک لشکر یوشع کے زیرِ نظر یثرب روانہ کر دیا
جس نے کچھ عرصہ میں ارقم کی حکومت ختم کی

اور ارقم کے جواں سالہ حسیں بیٹے کی جاں بخشی کی عرضی کو لئے
پہنچے اسرائیل تو روحِ کلیم

قیدِ جسم و جان سے آزاد ہو کر
جا چکی تھی رب کے پاس

اہل۔ اسرائیل نے موسیٰ کے نافرمان لشکر سے کہا
یہ جگہ اب باعثِ خاطر نہیں

جاؤ یثرب میں ٹھکانہ ڈھونڈ لو
یوں بنی نوع و خرابِ اسرائیل

جابجا قلعے بنا کر
آب پاشی اور زراعت کو یہاں دے کر فروغ

ہو گئے آباد یثرب میں سبھی۔۔!

۔۔ ترکِ سبا۔۔

وہ سیلِ ارم کی فصیلِ حمیری
یمن کی زمینوں کو شاداب و زرخیز و جنت فزا کرنے والی وہ دیوار

کسی پل بھی بکھرے گی تنکے کی مانند
یہ باغات اجڑیں گے فصلیں سبھی نیست و نابود ہوں گی

عمارات و مینارے ہوں گے زمیں بوس
یہ جنت کھنڈر آسا نقشہ بنے گی

یہ سب عمرو بن عامر و ماسما کی وہ زوجہ
بڑی کاہنہ محترم از طریقہ حمیرہ نے سب سے کہا تو

وہ جو اسماعیلی قبائل تھے کیسے
خدا کیش کی بات کو رد ہی کرتے

سبھی اوس و خزرج
وہ ملک سبا وہ وطن ہائے بلقیس، ارضِ عدن

چھوڑ کر آن پہنچے تھے
یثرب کے سرسبز و سیراب خطے میں جس پر سبھی اسرائیلی تھے پہلے سے

توقیر و قوت و زر یافتہ کچھ۔۔!

۔۔ قنطورا۔۔

سن ابنِ عجلان، بھائی میرے کہ اب مجھے تو
سزائے بد تر کی آرزو ہے

یہ میں ہوں، قنطورا بنتِ عجلان
اوس و خزرج کی شاہ زادی

بڑی حویلی کے صحن میں جو
بدن برہنہ کھڑی ہوئی ہے، اکابریں میں

عرب کے سرداروں کی نگاہیں جھکانے والی
جو اب تلک خود کے واسطے

کوئی بھی سزا طے نہ کر سکے ہیں
سب اوس و خزرج کے لوگ مردہ قلوب والے

جو اپنے ہاتھوں سے بیٹیوں کی شبِ عروسی
سے قبل اک شب

قماشِ بد، خصلتِ خراباں کے عیش کردہ
کی خلوتوں میں سپرد کرنے کے مہتمم ہیں

وہ صاحبِ زر، غلیظ فطیون
عرب کی عزت سے کھیل کر بھی

تمہاری ہم شیر کے لئے معتبر ہو کیسے؟
یہ ننگ ہے اب تمہارے سوتے ہوئے ضمیروں پہ تازیانہ

سو یاد رکھنا
میں خواب گاہِ رذیل فطیون پر خوشی سے

عدم کو ترجیح دے رہی ہوں
یہ سن کے مالک کی تیغ فطیون کو نہ زندہ ہی چھوڑ پائی

ابو حبیلہ کو ارضِ یثرب
یہودیوں سے تہی بنانے کا عزم سونپا۔۔!

۔۔ مبعوث۔۔

ابھی شیر و شکر ہونے کے پر٘اں تھے
کہ باہم انتشار و افتراق و ابتلا کی رٌت

مثالِ قہرِ نادیدہ ہوئی وارد
جدال و جنگ میں مصروف ہو کر اوس و خزرج نے

بِنائے ارضِ یثرب کارزارِ لحم و خوں کر دی
سمیر و کعب بن ھاتف بنی نج٘ار و بن مازن

کہیں
حاطب امی٘ہ، ثعلیہ زبیان کے جھگڑے

کبھی
یومِ ربیع و البقیعی پر

فجار و یاث میں جنگیں
بس اک عفریتِ دہشت

ایک خوں آشام سی وحشت
نہیں تھمنے کا جو لیتے تھے ہرگز نام اک پل بھی

بنو خزرج ہوے برباد تو کچھ اوس بھی نابود
ادھر یہ قتل و خوں جاری

اٌدھر کچھ دور مکہ میں
مورخ چھ سو سولہ عیسوی سن لکھ رہا تھا جب

طلوعِ ماہتابِ امن
پینتالیس برسوں کی حسیں رعنائیاں اوڑھے

اجل پر مسکراتا تھا۔۔!