1. ہوم
  2. غزل
  3. کرن ہاشمی
  4. بات نکلی ہے جو زباں سے اب

بات نکلی ہے جو زباں سے اب

بات نکلی ہے جو زباں سے اب
تیر چُھوٹا ہے اک کماں سے اب

تیری نظروں میں عیب ہیں سارے
کیا ہے پنہاں ترے گماں سے اب

جانے بھٹکیں گے وہ کہاں سب ہی
پنچھی بچھڑے ہیں آشیاں سے اب

اپنی منزل ہی ہم کو مل جائے
رستے ہو جائیں مہرباں سے اب

بات پوری مری ہوئی ہی نہیں
بات کاٹو نہ درمیاں سے اب

ہائے مشکل ہوا کرن کو بھی
کھویا کردار داستاں سے اب