1. ہوم
  2. کالمز
  3. آغر ندیم سحر
  4. رات مجھے اچھی لگتی ہے

رات مجھے اچھی لگتی ہے

رخشندہ نوید ہمارے عہد کی ان خواتین میں شامل ہوتی ہیں جن کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور خیالات و احساسات میں ایک بہائو بھی، ایسا بہائو جس میں تخلیق کار کے ساتھ قاری بھی بہتا چلا جاتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک تخلیق کار، اپنی تجربات میں اپنے قاری کو بھی شامل کر لے، یہ رخشندہ نوید کی خوبی ہے کہ وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر چلتی ہیں، اسے ان وادیوں کی سیر کرواتی ہیں، جن سے وہ خود گزر کر آئی ہیں، یہ اپنے قاری کو اس دنیا کا تعارف کرواتی ہیں، جس دنیا نے انھیں منفرد سوچنا، منفرد لکھنا اور منفرد بولنا سکھایا۔

ہمارے ہاں منفرد سوچنے اور بولنے والے کو غدار کہا جاتا ہے، یہ اس معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم کسی بھی ایسے روشن دماغ کو قبول نہیں کر سکتے جو زمانے کے بنے بنائے سانچوں سے بغاوت کرتا ہے۔ رخشندہ نوید کی شاعری کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ آپ آزادانہ طور پر اپنی فکر کا اظہار غزل اور نظم میں کر سکتی ہیں۔ رخشندہ نوید کلاسیک و جدید کی روایت سے بھی بخوبی واقف ہیں اور سماج کے ان اصولوں سے بھی جن کی وجہ سے یہ معاشرہ کسمپرسی کا شکار ہے لہٰذا یہ اپنے احساسات و جذبات کا اظہار بغیر کسی مصلحت اور خوف کے کر سکتی ہیں۔

آپ کی شاعری میں درجنوں ایسی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں جن میں کا باغی لہجہ بالکل واضح ہے، میں بغاوت کو انفرادیت سے جوڑتا ہوں کیوں کہ جو تخلیق کار خود کو شاعری اور زمانے کے بنے بنائے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے، اپنا الگ راستہ بناتا ہے، یہ زمانہ بھی اسے قبول نہیں کرتا اور اسی لیے ہمارے ہاں باغی کلچر متعارف ہوا۔

رخشندہ تیرے ہاتھ میں ہیں کتنی انگلیاں
ہر ظلم کے خلاف کرے گی جہاد تو

رخشندہ نوید خواب دیکھنا چاہتی ہیں، ایسے خواب جس سے وہ اپنی دنیا بھی سنوار سکے اور یہ معاشرہ بھی، ایک ایسا معاشرہ جہاں خواب دیکھنے پر پابندی ہے، اس معاشرے میں رخشندہ خوابوں کی بات ہی نہیں کرتی بلکہ لوگوں میں خواب دیکھنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے، وہ سماج کی بجھی آنکھوں میں روشنی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے کیوں کہ اس کو علم کہ جو آنکھیں خواب نہیں دیکھتیں، وہ بنجر ہو جاتی ہیں، ایسے لوگ قابلِ رحم ہوتے ہیں جو سماج میں تبدیلی کا خواب نہیں دیکھتے، کسی مصلحت کی وجہ سے یا اندرونی و بیرونی خوف کی وجہ سے، خواب نہ دیکھنا ناقابلِ معافی جرم ہے، یہی وجہ ہے کہ رخشندہ نویدخواب کی بات کرتی ہیں، انھیں تعبیر سے بھی پہلے خواب کا مسئلہ درپیش ہے، یہ مسئلہ کسی بھی ایک فرد یا تخلیق کار کا نہیں بلکہ میرے سماج کا سب سے بنیادی اور مجموعی مسئلہ ہے۔

ہماری نیندوں کو تعبیر سے بھی ہوگی غرض
ابھی تو مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خواب آئے

رخشندہ نوید ایک محب و طن قلم کار ہیں، انھیں اپنے خوابوں، اپنے جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ اس وطن کی مٹی بھی بہت پیاری ہے۔ یہ اپنے شاعری میں صرف اپنے جذبات و احساسات کو قلم بند نہیں کرتی بلکہ انھیں وہ دکھ بھی ستا تا ہے جس نے ان کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا۔ رخشندہ نوید کے نزدیک گھر صرف چار دیواری سے بنی ہوئی وہ عمارت نہیں، جس میں وہ رہتی ہیں بلکہ ان کا گھر یہ وطن ہے اور صد حیف"اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے سے"۔ رخشندہ نوید اس گھر کے جلنے کا نوحہ بھی کہتی ہیں، اپنے اندر کی کرب ناک اداسی کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہیں اور کہتی ہیں:

چار سو رہتا تھا ہنگام گلی کوچوں میں
آگ اس بار مگر اپنے گھر لگ گی

پرسا دینے میں دیر کر دی ہے
ہنسنے والوں کو پھر رلائے کوئی

آندھیوں نے شجر اکھاڑ دیے
اتنی شدت سے یاد آئے کوئی

رخشندہ نوید ان آندھیوں پر بھی صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں جنھوں نے ہمارے شجر اکھاڑ دیے، ہمارے لوگ مار دیے، ہماری دنیائیں اجاڑ دیں، ہم سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا گیا، ایسا سماج جس میں لوگ ہجرت پر مجبور ہو جائیں، ایسا سماج جہاں لوگ محض اس لیے موت کو گلے لگا لیں کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں، ان لوگوں اور ان چہروں کی تلاش میں رخشندہ نوید نکل پڑتی ہیں اور چیخ کر کہتی ہیں:

اپنی البم کو کھول کر چیخوں
اُف! خدایا جہاں گیا چہرہ

اور کچھ بھی کہاں بچا ہوا ہے
دل تھا سو میری جاں بچا ہوا ہے

دیکھ لی رات بھر زمینِ حیات
اب فقط آسماں بچا ہوا ہے

شکر ہے پھٹ نہیں گیا غم سے
دل مرا رازداں بچا ہوا ہے

ہجر میں راکھ ہو نہیں پایا
گہرے دکھ کا نشاں بچا ہوا ہے

رخشندہ نوید کا تازہ شعری مجموعہ "رات مجھے اچھی لگتی ہے"اس لیے بھی میرے دل کے بہت قریب ہے کہ اس میں درجنوں ایسے اشعار موجود ہیں جو رخشندہ ہی نہیں ہم سب کے دل کی آواز ہیں، رخشندہ نوید کی طرح ہم سب بھی سماجی انتشاراور ذہنی خلفشار سے دو چار ہیں، ہم بھی ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں امن ہی امن ہو، اخوت اور رواداری کی کونپلیں پھوٹیں، منافقت کا قلع قمع ہواور ہر طرف خوشبو ئوں کا راج ہو۔