ہارڈورڈ یونیورسٹی کے سینیئر پروفیسر اور اہم ترین مغربی سائنس دان ڈاکٹر ہنری لارسن نے یکم رمضان المبارک کو اسلام قبول کیا اور عمرے پر روانہ ہو گئے، ہنری، اہم ترین امریکی یونیورسٹی ہارڈروڈ سے وابستہ ہیں، آپ موروثی نابینا پن کے علاج کے لیے اسٹیم سیل دوا کے موجد ہیں جسے حال ہی میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے تیسرے اور آخری مرحلے میں جانچ کے لیے منظور کر لیا گیا، اس کے بعد اسے عالمی سطح پر بھی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔
ڈاکٹر فرید پراچہ نے اس خبر کے بعد محترم احید حسن کی ایک بات نقل کی، جسے من و عن دہرا رہا ہوں، ان کا کہنا تھا کہ "مشرق کے چھوٹے ذہن اسلام پر اعتراض کر رہے ہیں جب کہ مغرب کے بڑے اذہان اسلام قبول کر رہے ہیں"۔
میں جس سمے یہ خبر اور اس بارے میڈیا پر گردش کرنے والے تبصرے پڑھ رہا تھا مجھے سورۃ محمد کی آیت نمبر 38 یاد آ گئی جس میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں" یاد رکھو تم وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم سے بعض ایسے بھی ہیں جو بخل کرتے ہیں حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے"۔
اس آیت کریمہ کا آخری حصہ انتہائی اہم ہے، اگر ہم خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کریں گے تو خدا ہماری جگہ کسی دوسری قو م کو لے آئے گا اور اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ وہ قوم اور وہ لوگ تم جیسے نہیں ہوں گے۔
عالمِ اسلام میں ہنری لارسن کا اسلام قبول کرنا اہم ہو یا نہ ہو میرے لیے یہ واقعہ بہت اہم ہے، ہم جب اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں تو خدا کے لیے بعید نہیں کہ وہ اپنے دین کا کام دوسری قوموں سے لینا شروع کر دے اور یہ بات ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ ہونی چاہیے۔ رمضان کا مہینہ اگرچہ ہم سب انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں، خدا کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں، صدقہ و خیرات میں بھی پس و پیش نہیں کرتے مگر ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے جو اس مہینے میں بھی بخل، لالچ، جھوٹ، دھوکہ دہی اور بغض سے باز نہیں آتے، جو لوگ اس مہینے میں بھی خدا کی نعمتوں کا انکار کریں، اس کے دیے ہوئے مال سے بھی اسے واپس نہ کریں، اس کی بھیجی ہوئی کتاب سے تعلق نہ بنائیں، اس کے دیے ہوئے احکامات پر عمل نہ کریں، تو پھر اللہ تعالی ہماری جگہ ان قوموں کو لائے گا جو ہم سے بہرحال بہت بہتر ہوں گی۔
آج جب ہم مغربی تہذیب کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اسلامی تہذیب کا چربہ بتاتے ہیں تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس تہذیب، جس کتاب اور جس دین کے داعی ہیں، ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا، ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے، اسلاموفوبیا نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا ہے مگر صد حیف کہ ہم مسلم یا عالم اسلام کہاں کھڑا ہے؟
ہمیں ماہِ رمضان میں ہی سہی، ایک مرتبہ اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے، میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ جب ہمارا ذخیرہ اندوز اپنی ہی قوم کو لوٹنے کے نت نئے طریقے اپنا رہا ہوتا ہے، جب ہمارا شرافیہ اپنے ہی لوگوں کا خون چوس رہا ہوتا ہے، عین اسے لمحے اس بابرکت مہینے میں پورا مغرب مسلم کمیونٹی کے لیے سہولت کے راستے تلاش کر رہا ہوتا ہے، ایسا کیوں ہے؟
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صرف ماہِ رمضان میں ڈیڑھ ہزار کے قریب غیرمسلموں نے کلمے کی دعوت قبول کی تھی، وہ لوگ اس مہینے کی فیوض و برکات سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ کئی مسیحی خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
پروفیسر ہنری سمیت ہزاروں مغربی دانشوروں کا اسلام قبول کرنا تصویر کا ایک رخ ہے، تصویر کا دوسرا رخ ہم ہیں، پاکستانی قوم ہے، عالم اسلام ہے، مسلمان ذخیرہ اندوز ہیں، کیا ہماری تصویر بہتر ہے یا مغرب کی، ہمارے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا، ہمیں اس کا جواب انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم رمضان کیسے گزار رہے ہیں، ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جس مغرب کو ہم صبح شام گالی دیتے ہیں، ان کی تہذیب یا ان کا مسلمانوں سے تعلق کیسا ہے یا یہ بھی کہ وہ اسلامی تہذیب کے بارے کیا سوچتے ہیں۔
ہم تو صرف ایک ماہ کے مسلمان ہوتے ہیں، ہم صرف ایک ماہ صدقہ خیرات کرتے ہیں، ایک ماہ عبادت کرتے ہیں، ایک ماہ کے لیے دھوکہ دہی یا جھوٹ سے باز رہتے ہیں، ان لوگوں کے بارے سوچیں جو مسلمان نہیں ہیں، دنیا کی سب سے عظیم کتاب کے قاری نہیں ہیں، ان کا اخلاق کیسا ہے، ان کا رہن سہن کیسا ہے، دوسروں کے ساتھ ان کے معاملات کیسے ہیں، جس دن ہم یہ سوچنے لگیں گے، اس دن شاید ہمیں اسلام کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگے۔
میں ایسے درجنوں واقعات رقم کر سکتا ہوں کہ کب کہاں کیسے کسی مغربی دانش ور نے، سائنس دان نے، پروفیسر نے، ریسرچر اور بزنس مین نے اسلام قبول کیا، اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں اسلام کی تعلیمات کا انتہائی گہرا عمل دخل ہوگا۔ کاش ہم بطور مسلم ایک مرتبہ سوچیں کہ ہم ایسے کیوں ہیں جن کے بارے میں علامہ مرحوم نے کہا تھا یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔ علامہ مرحوم نے ہی کہا تھا کہ تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو۔ ہمیں اگر کسی کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا پڑے کہ ہم مسلمان ہیں تو ایمان داری سے سوچیں کیا ہم اپنے رویے، مزاج، گفتگو اور عمل سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؟
اگر کوئی غیر مسلم رمضان کے مہینے میں ذخیرہ اندوزوں کو دیکھ لے تو کیا وہ اسلام قبول کر لے گا؟ یقینا آپ کا جواب بھی نہیں میں ہوگا، اسی نہیں کے بارے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم ہم رمضان میں ایک مرتبہ سوچیں کہ ہم کہاں ہیں، کیوں ہیں اور کیسے پہنچے ہیں، جس دن ہم یہ سوچنا شروع کر دیں گے تو یقین کر یں خدا دین کا کام ہم سے لینا شروع کر دے گا ورنہ قرآن کی آیت کے مطابق خدا کے لیے مشکل نہیں کہ وہ ہماری جگہ کسی دوسری قوم سے اپنے دین کا کام لینا شروع کر دے اور وہ دن ہماری زندگی کا بلیک ڈے ہوگا۔