1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آغر ندیم سحر/
  4. شہرت کی بھوک

شہرت کی بھوک

شہرت کی بھوک، روٹی کی بھوک سے زیادہ خوف ناک ہوتی ہے، اس بھوک کا شکار شخص ہر چیز کو پروٹوکول کی آنکھ سے دیکھتا ہے، اسے لگتا ہے اس دنیا کا نظم و نسق میرے بغیر نامکمل ہے، وہ خود کو سپیریئر سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور وہ اس بات کا بھی خواہش مند ہوتا ہے کہ اسے تمام لوگ سپیئریئر ہی سمجھیں۔ ایسے شخص کو اگر کہیں اپنا تعارف کروانا پڑ جائے تو غصے میں آجاتا ہے، تعارف میں اپنا نام بتانے کی بجائے خدمات پر زور دیتا ہے تاکہ اس کے سامنے اپنی شہرت کی دھاک بٹھا سکے۔ مشہور آدمی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ مادیت پرست ہو جاتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مادیت پرست آدمی، انسانوں سے بہت مختلف ہو جاتا ہے۔

شہرت دنیا کی سب سے فانی چیز ہے، یہ کسی کی بھی سگی نہیں ہوتی، یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا مقام بدلتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو ایک وقت میں بہت مشہور تھے مگر جب شہرت کی دیوی نے انھیں پس پشت پھینکا، وہ پاگل ہو گئے، وہ ہر آدمی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے، انھیں یوں لگنے لگا کہ ہر دوسرے شخص نے میرے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے، جو ایوارڈز اور تمغے میرے نام کے تھے، وہ بھی باقی لوگ لے اڑے، ایسے بد نصیب کو کوئی سمجھائے کہ ہر چیز اور شخص کا ایک زمانہ ہوتا ہے، مختصر یا کم۔ یہ زمانہ آخر کار ختم ہو جاتا ہے، بدل جاتا ہے اور جہاں ہم ہوتے ہیں، اگلے سالوں میں وہاں کوئی اور ہوتا ہے۔

ہمارے ارد گرد سینکڑوں نہیں تو درجنوں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو اس بیماری اور بھوک کا شکار ہیں، یہ بیماری ہر اس آدمی کو لاحق ہوتی ہے جو دو چار مرتبہ مہمان اعزاز بن جائے، دو چار ایوارڈز حاصل کر لے یا پھر ایک دو کانفرنسوں اور سیمینارز میں بطور اسپیکر مدعو ہو جائے، اسے پھر یوں لگنے لگتا ہے کہ اب ہر تقریب میں بطور مہمان اعزاز جانا ناگزیر ہو چکا۔ ایسے شخص کو اگرکسی تقریب میں بطور سامع بلانا پڑ جائے تو قیامت آ جاتی ہے، پہلے تو وہ آپ کو ایک لمبا چوڑا لیکچر دیتا ہے اور پھر مسکراتے ہوئے معذرت کر لیتا ہے۔

مشہور آدمی کا ایک اور المیہ بھی ہے، اسے لگتا ہے کہ یہ شہرت کبھی ختم نہیں ہوگی، اس کی ترقی کا سورج ہمیشہ سوچمکتا رہے گا حالانکہ ہم سب جانتے ہیں ایسا نہیں ہوتا، یہ دنیا کی سب سے فانی اورغیر اہم چیز ہے۔ جس شخص کو یہ بیماری لاحق ہو جائے وہ اپنے پیاروں سے دور ہو جاتا ہے، وہ کود چلنا چاہے بھی تو بہت سارے اپنے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، جب یہ شہرت ختم ہوتی ہے، یہ وسیع و عریض حلقہ کہیں نظر بھی نہیں آتا۔

ہم اکثر سنتے ہیں کہ کوئی بڑا تخلیق کار، انسان بھی بڑا ہو یہ بالکل ضروری نہیں۔ بہت سے ایسے مشہور تخلیق کار اور بیوروکریٹس ہیں جن کی انسان دوستی پر سوالیہ نشان ہے، یہ بیماری صرف قلم کاروں کو نہیں بلکہ ہر شعبے میں ایسے نابغے موجود ہیں جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شہرت کی دیوی کبھی نامہربان نہیں ہوگی حالانکہ ایسا نہیں ہوتا، وقت بڑا بے رحم ہے، یہ بڑوں بڑوں کو سبق سکھا دیتا ہے۔

مشہور آدمی کو لگتا ہے کہ دنیا کی ہر کامیابی اور ہر ایوارڈ پر صرف اسی کا حق ہے۔ یہ اپنے ساتھ اپنے بچوں کے لیے بھی اسی شہرت اور کامیابی کے خواہش مند ہوتے ہیں جو خدا نے انھیں دی ہوتی ہے، ایسے لوگ شروع میں تو اپنی کامیابیوں پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں مگر بعد میں اسے اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں، یہاں سے ہی وہ سارے مسائل جنم لیتے ہیں جن کا اختتام پاگل پن ہوتا ہے۔ مشہورآدمی سچے اور مخلص دوستوں سے دور ہو جاتا ہے، ایسے شخص کے ارد گرد صرف کھوکھلے لوگ جمع ہوتے ہیں۔

ایسا شخص جب زمین پر گرتا ہے تو اس کے لاکھوں مداحوں میں سے کوئی ایک بھی اسے اٹھانے یا سہارا دینے نہیں آتا۔ ہم نے ادبی دنیا میں ایسی بہت سے مثالیں دیکھیں، خدا نے بڑا نام دیا، شہرت ملی، پیسہ ملا مگر جب اس فانی اور مادی زندگی سے واپسی ہوئی تو ان کی حالت دیکھنے والی تھی، یہ لوگ حقیقت میں پاگل ہو گئے، یہ تنہائی میں اپنا جسم نوچنے لگے، اپنے بال کھینچنے لگے اور ہر اس شخص کو گالی دینے لگے جو مشہور ہوتا تھا، انھیں لگتا تھا کہ یہی وہ ظالم شخص ہے جس نے ان کا استحصال کیا، ایسے لوگ چوبیس گھنٹے غصے سے بھرے رہتے ہیں۔

ایسے لوگ بہت متکبر ہوتے ہیں، ضدی بھی اور جذباتی بھی، ظاہری طور پہ ایسے لوگ آپ سے یوں ملیں گے جیسے آپ پر فدا ہیں مگر ایسے لوگ صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں، ان کے پاس صرف ایک آنکھ ہوتی ہے اور وہ بھی مفاد کی۔ یہ اپنے خونی رشتوں کو بھی اپنے فائدے کے لیے سلام کرتے ہیں، یہ اس قدر احمق اور بددماغ ہو جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی نعمت شہرت ہوتی ہے حالانکہ شہرت نعمت نہیں بھوک اور ہوس ہے۔

ہمیں بس یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ایک وقت میں یہ دیوی ہم پہ مہربان ہے تو ایسا وقت بھی آئے گا جب یہ ہم سے منہ پھیر لے گی، ایسے میں ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے، یہ چیز معنی رکھتی کرتی ہے۔ ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ شہرت مل تو جاتی ہے مگر اسے سنبھالے رکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، عزت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس کو سنبھالے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

میں جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں مجھے درجنوں ایسے دوست نظر آتے ہیں جن پر عروج ہے، مشہور بھی ہیں اور قابلِ عزت بھی۔ میں اپنے ان دوستوں کے لیے دعاگو ہوں کہ خدا انھیں شہرت کے شر سے بچائے، آمین۔