1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. دکھتی رگ

دکھتی رگ

تقریب میں سب کی آنکھیں سدھو پر جمی تھیں۔ ہرسمرت کور بادل چونکہ ایک متنازع سیاسی خاندان سے تعلق اور سکھبیر سنگھ بادل کی اہلیہ ہونے کے سبب دبکی بیٹھی تھیں۔ لیکن جوں ہی انکا نام پکارا گیا انکی ساری شرومنی اکالی دال سکھ قوم پرستی کے دریا میں بہہ گئی۔ وہ اٹھیں اور جذبات میں وہ کچھ کہہ گئیں جو شاید انہیں نہیں کہنا چاہیے تھا۔ شرومنی اکالی دال بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں قائم ہونے والی سکھ ترجمان جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ خود کو سکھوں کی نمائندہ جماعت کہنے والی اس تنطیم میں تقسیم ہند کے بعد لاہور کے فارمن کرسچین کالج لاہور سے فارغ التحصیل پرکاش سنگھ بادل کرتا دھرتا رہے۔ اور لمبے دورانیے تک بھارتی پنجاب کے حکمران رہے۔ فارمن کرسچین کالج نے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، یاور حیات خاں، بپن چندرا، وجیہہ الدین احمد، کلدیپ نائر، کرشن چندر، مرحومہ کلثوم نواز، جہانگیر ترین، پرویز مشرف، پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی سمیت کئی بڑے نام پیدا کیے۔ پرکاش سنگھ بادل کرپشن اور بد عنوانی کے الزامات کا بھی شکار رہے۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ انہیں میاں برادران نے تحفے میں چار دنبے سرحد پار بھجوائے۔ یہ ان کی قسمت کہ چاروں دنبے بعد ازاں مر گئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے سکھبیر سنگھ بادل نے اکالی دال کی ذمہ داری اور سیاسی امور کو پروان چڑھایا۔

کپتان امرندر سنگھ جو موجودہ وزیر اعلیٰ بھارتی پنجاب ہیں۔ وہ بھی ٹریکٹر تحفے میں دینے کے بدلے میں گھوڑے وصول کرچکے۔ 2013 میں بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ پر جیل میں حملہ ہوا اور بعد میں جانبر نہ ہوسکا۔ تب دونوں جانب کشیدگی پیدا ہوگئی۔ لیکن اس کشیدگی میں بھی اٹاری بارڈر سے بادل خاندان نے چار دنبوں، تین نیل راوی بھینسوں، تین ساہیوال نسل کی گائیں، دو بیل، تین بھیڑوں سمیت 13 جانوروں کا تحفہ وصول کیا۔ لیکن سمجھ نہیں آتا کہ بے جے پی کے اتحاد میں آکر اب اتنے دکھی کیوں؟ عمران خان صاحب کا اس راہداری پر میجر اسٹیک ہولڈرز سمیت فوج کو منانا بڑی اہم بات ہے۔

12 سال بی جے پی کے منچ پہ رہنے والے سدھو صاحب کانگریس میں آکر یکسر بدل کیسے گئے۔ عدالتوں کورٹ کچہریوں کے دھکے کھانے والے سدھو امرتسر نہ چھوڑنے کی وجہ سے پنجاب تک محدود ہوگئے۔ ان کی تقریر میں جب بھارتی پنجاب کی سبزیاں بیلجیئم بیچنے کا ذکر ہوا تو بھارتی شدت پسندی کا منجن بیچنے والے پھر خالصتان کے خوف کا شکار ہوگئے۔

بھارتی اجنتا پارٹی کو نظر آرہا ہے کہ میل جول بڑھنے سے نفرتیں کم ہوں گی اور نفرتیں کم ہو گئیں تو وہ 2019 کا الیکشن ہار جائیں گے۔ بے جے پی کی بنیاد ہی چونکہ نفرت اور قتل وغارت پہ رکھی گئی ہے اس سے کوئی بھی توقع کرنا بے سود ہے۔

پچھلے کچھ ماہ میں کشمیر کا مسئلہ جس شدت سے اٹھایا جارہا ہے اور پاکستان جتنی پہل کررہا بھارت کے لیے زیادہ دیر تک راہ فرار ممکن نہیں رہے گی۔ ان کی دکھتی رگ کشمیر تو تھی ہی اب اس میں بھارتی پنجاب کا اضافہ ہوا چاہتا ہے۔

جہاں تک میرا خیال ہے آنے والے دنوں میں بھارت فرنٹ فٹ ڈپلومیسی کو زیادہ دیر جھیل نہیں پائے گا۔ کرتار پور راہ داری بننے سے سکھ برادری کی خوشی اور پاکستان سے محبت مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ وہ پھندہ ہے جو بھارت دو طرفہ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے پہن چکا ہے۔ جس طرح پاکستان کی لیڈر شپ اور کانگریس کی لیڈر شپ میں تال میل ہے اگر راہول گاندھی اقتدار میں آئے تو یہ خطہ بہت کم سمے میں غربت، بے روزگاری، صحت و تعلیم سمیت دیرینہ مسائل سے چھٹکارا پا لے گا۔

شائد یہی وجہ ہے کہ چائنہ کے کراچی قونصلیٹ پر حملے میں ملوث بھارتی ایجنسی را کے مہروں کا واویلا نہیں کیا گیا۔ اور یہ زخم بھی برداشت کر لیا گیا ہے۔ اگر بھارت مذاکرات کی میز پر آتا ہے تو اس کی اربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ ضائع چلی جائے گی۔ اور اس فیصلے سے چین تو بہت خوش ہوگا لیکن اسرائیل اور امریکہ کبھی بھی بھارت کو اس نگاہ سے نہیں دیکھے گا جس آنکھ کا تارہ ان دنوں بھارت ہے۔

عامر ظہور سرگانہ

Aamir Zahoor

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔