جیسے کل ہی کی تو بات تھی نازو نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا۔ عنفوانِ شباب میں پورے قصبے میں اس خوبصورت اور جمالی روح کے چرچے تھے۔ شکل و شباہت ایسی کہ پریوں کو مات دیتی۔ نین نقش تیکھے، موٹی موٹی گول آنکھیں تو جیسے قیامت کی گھڑی تھیں۔ پھر اُس پر چاند چہرے نے غضب برپا کررکھا تھا۔ آواز میں پپہیے سی دلکشی زہرِ قاتل کی صورت تھی۔ بچپن سے ہی عبدالشکور کی لاڈلی تھی۔ وہ ان تتلیوں کی سی معصوم تھی جو رنگدار قمیص پر محض اس لیے بیٹھ جاتی تھیں کہ انہیں پھول کی سی شباہت معلوم پڑتی۔ بلوغت تک امورِ خانہ داری سے اسے کچھ رغبت نہ رہی۔ البتہ بناؤ سنگھار میں وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سنگھاردان اوائل بچپن سے ہی اس کا واحد شغل تھا۔ حالانکہ اس کے قدرتی حسن آگے اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ تبھی تو حبیب پچھلے کئی دن سے مارا مارا پھر رہا تھا۔ عبدالشکور جیسا دیندار آدمی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی عزت کو یوں اچانک تماشائے اہلِ قصبہ بنا دیا جائے گا۔ نازو کو گھر چھوڑے اب پورا دن گزر چکا تھا۔ وہ تعجب، ہیجان اور غیر یقینی کی سی کیفیت اب نہیں رہی تھی۔ نازو نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن وہ اسطرح اپنے شریف منش باپ کی پگڑی کو روندتی ہوئی گھر سے آشنا کے ساتھ فرار ہو جائے گی۔
آشنا محمد حبیب ایک زمیندار کا بیٹا تھا۔ لیکن زمین اور زمینداری سے اس کا دور دور کا رشتہ نہ تھا۔ تعلیم بھی کچھ خاص نہ جوڑ پایا۔ اس کے باپ چوہدری شاہ محمد جو علاقے شاہو کے نام سے جانا جاتا تھا نے اسے کھیتی باڑی کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی۔
ڈیرے پر تین ٹہنی، نو ٹہنی، بارہ ٹہنی، تاش، مے نوشی کے علاوہ موصوف کبھی کبھار کسی کَمی کی بیٹی سے محبت کے دو چار بول بھی بول جاتے تھے۔ جو گھاس کاٹنے گنے، مکئی، کپاس کے کھیتوں میں اکثر آتی رہتی تھیں۔
پچھلے پانچ سال سے وہ اسی مرض میں مبتلا تھا۔ اِس کی ہوس تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی۔ کبھی کبھار تو روزانہ ذائقہ تبدیل کرنے کے درپے ہوتا۔
اب تو دو چار اور دوست بھی اس کارگزاری میں ساتھ ہولیے تھے۔ وہ شکار تو الگ الگ کرتے مگر اس میں حصہ سب کے لیے رکھتے۔
اگر ان میں سے کوئی چوں چراں کرتی تو اسے بدنام کرنے اور زیادتی کی دھمکی دے دیتے۔ کبھی کبھار تو قتل تک کرنے کی بات کر جاتے۔ معمولی آنکھ مٹکے سے بات انتہا کو چھو جاتی اور پھر نئے شکار کی تلاش۔۔
ایسے میں نازو منظر عام پر آئی۔ ایک دن کالج سے واپسی پر حبیب کی نظر اس پر پڑی تو جیسے باولا ہوگیا۔۔ وہ حبیب جو ڈیرے سے نہ نکلتا تھا۔ اب عبدالشکور موچی کے محلے کے آس پاس منڈلاتا رہتا۔ کبھی بازار میں آمنا سامنا ہوجاتا کبھی ولائیت ماچھی کی ہٹی پر دونوں ٹکر جاتے۔ خیر یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلا۔ نازو بہت جلد بھانپ گئی تھی کہ حبیب کے دل میں اس کے لیے اچانک محبت کا محل ایک ریت کی دیوار تھی جو کسی بھی لمحے دھڑام سے زمین بوس ہونے والی تھی۔ نذیر جولاہے کی بیٹی سادو اسے کئی ایک بار متنبہ کرچکی تھی کہ حبیب معصوم لڑکیوں کو محبت کا جھانسا دے کر پھانستا تھا اور جونہی اس کی پہنچ آزار بند تک ہوتی اس کی محبت رفو چکر ہوجاتی۔ اس بات کی تصدیق کو اس نے خود حبیب سے پوچھ لیا تھا۔ جس پر حبیب نے سادو جولاہی کو ایک نمبر کی جھوٹی اور دو نمبر لڑکی کہہ کر اپنا دفاع کیا مزید اس پر تاویل پیش کی کہ اس کی قصبے کے ہر اس لونڈے سے جان پہچان تھی جو آزاربند کا کمزور واقع ہوا تھا۔ اس نے اپنی پاک دامنی کی دھاک بٹھانے کو ایک سوال بھی کیا تھا کہ اگر وہ اتنی اچھی دوست اور سچی محبت کرنے والی تھی تو اس نے چوہدری علی شیر کے بیٹے سے کاہے تعلق بنا رکھے تھے۔ جو اسے ہر سہہ ماہی نئے کپڑوں کے جوڑے بھجواتا تھا۔
پہلے پہل تو نازو کے دل میں ایسا کچھ حبیب کے واسطے پیدا نہ ہوا۔
حبیب کے کردار سے متعلق اس نے کئی ایک لڑکیوں اور عورتوں سے بھی سن رکھا تھا لیکن بارہا پیچھا کرنے، پیغامات بھجوانے سے اس کا دل پسیج گیا اور وہ موم کی گڑیا ثابت ہوئی۔ جذبات اور الفاظ کی حدت آگے پگھلتی چلی گئی۔ حبیب اب ایک ماہر شکاری بن چکا تھا۔ اس لیے اس کا ہر نشانہ ٹھیک ٹھیک جگہ بیٹھ رہا تھا۔ نازوحبیب کی چکنی چپڑی باتوں کے آگے بچھتی چلی گئی۔ کافی دن تک یہ معاملہ خط و کتابت اور محلے کی حد تک چلتا رہا۔ بات جب محلے سے نکل کر قصبے کی حدود سے باہر نکلنے لگی تو اس کے باپ کو ہوش آیا۔ عبد الشکور نے چوہدری شاہو سے اس معاملے پر بات کی تو پہلے تو وہ اپنے لختِ جگر کی پارسائی پر سوال اٹھنے پر غیر معمولی سیخ پا ہوا پھر اس نے معاملے کی سنگینی اور رہی سہی ساکھ کے بھی تباہ ہونے کے ڈر سے حبیب کے کان کھینچنے کا فیصلہ کیا۔
اس عقد کے کھلنے سے نازو پر بھی پابندیاں لگ چکی تھیں۔ کالج جانا بند کردیا گیا تھا۔ گھر سے نکلنا بھی محال تھا۔ لیکن حبیب تھا کہ آئی آفت کی طرح نہ ٹلتا۔
اس قدر تنگی بڑھی کہ حبیب نے نازو کو گھر سے بھگانے کا پیغام بھیجا اور فرار کی تیاری کرنے لگا۔ اس نے آڑھتی خورشید خان سے دو لاکھ روپے ابا کے نام پر بٹور لیے تھے۔ کچھ ایک آدھ لاکھ کے جانور باپ سے چوری بیچ ڈالے۔ ادھر نازو گھر کے تمام گہنے اور جمع پونجی گٹھری باندھ کر جمعہ کے روز پیرو والا کے مشرقی حصے میں گزرتی نہر کے پل پر آن پہنچی۔ وہاں سے اس نے حبیب کے ساتھ اس کے دوستوں کی مدد سے فرار کی راہ لی۔۔۔
محبت کے گن گاتے حبیب نے اسے بیدیاں روڈ لاہور میں اپنے ایک دیرینہ دوست کے متروک مکان میں رکھا ہوا تھا۔ نازو واحد شکار تھی جس کے لیے حبیب کو اس قدر جتن کرنا پڑے تھے۔ وہ دیگر عورتوں کو بہت کم میں راضی کر لیا کرتا تھا۔ اس کا شمار اب قصبے کے ماہر عشاق میں ہوتا تھا۔
اِدھر یہ انہونی ہوئی اُدھر پورے پیرو والا میں چے مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ عبدالشکور بیچارہ منہ چھپاتا پہلے تو ایک ہفتہ محلے والوں سے چھپتا پھرتا رہا لیکن آخر کب تک۔۔
محلے والوں کے چبھتے سوالات کا جواب دینا اتنا آسان بھی نہ تھا اور اب کوئی راہِ فرار بھی نہ تھی۔ نازو ایسی مہارت سے بھاگی تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوپائی۔
پہلی پنچایت میں چوہدری شاہو نے کافی گرمی دکھائی کہ شکورے کی بیٹی کی وجہ سے اُس کی قصبے میں بدنامی ہوئی تھی۔ اس کا بیٹا اور خاندان اس قضیے میں بلا وجہ بدنام ہورہا تھا۔ بیچارہ عبدالشکور سہما ہوا بیٹھا چپ چاپ سب کی باتیں سنتا رہا۔
تھانے میں رپٹ درج کرانے کی خانہ پری ہو چکی تھی لیکن اس میں نہ تو غائب ہونے کی وجہ کا کہیں ذکر تھا نہ ہی کسی کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔
چوہدری برکت علی جو قصبے کا بڑا زمیندار اور کونسل کا نائب ناظم بھی تھا منصف قرار پایا۔ اس کی منصفی کا ڈنکہ پورے پیرووالا میں بجتا تھا۔ وہ چونکہ ایسے کئی ایک واقعات بارے گہری جانکاری رکھتا تھا اس لیے وہ سب کی مشترکہ رائے سے پنچایت کا صدر قرار پایا۔
معاملہ اب بگڑتا دکھائی دے رہا تھا۔ چوہدری علی شیر جو کہ شاہو کا بدترین مخالف تھا۔ عبدالشکور کو مقدمے میں حبیب کو نامزد کرنے پر اکسا رہا تھا۔ لیکن یہ بات عبدالشکور کو کچھ ہضم نہ ہوئی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ مقدمہ بازی کوئی اتنا آسان کھیل بھی نہ تھا۔ مقابل چوہدری شاہ محمد اس فن میں خوب مہارت رکھتا تھا۔
نازو کو لاہور آئے دوسرا دن تھا۔ اب کچھ کچھ ہواس ٹھکانے آگئے تھے۔ لیکن گھر سے متعلق اپنے ماں باپ سے متعلق مسلسل حول اٹھتے تھے مگر اب اس مداوا نہ تھا۔
حبیب جس نے محبت کا ایک خوبصورت جالا بُن کر اس پتنگے کو قابو کیا تھا۔ اب آہستہ آہستہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے راستہ ہموار کرنے لگا۔ باقاعدہ طور پر نکاح کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ نازو نے حبیب سے پچھلی رات پوچھا تو وہ معاملے کے ٹھنڈا ہونے تک چپ رہنے کا مشورہ دے کر بات گول مول کر گیا۔
نازو کا اذیت کو سہتے پانچواں دن تھا۔ سب دوست مل کر اس شکار کے مزے لوٹ رہے تھے جس کو گرانے میں انہیں ہفتوں لگے تھے۔ نہ وہ محبت سچی تھی نہ عہدو پیمان کی باتیں بلکہ یہ سب حبیب اور اس کے دوست نادر علی کا مشترکہ منصوبہ تھا جس میں بلند خاں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔۔
وہ شراب کی پوری پوری بوتل غٹا غٹ چڑھا جاتے اور پھر بھیڑیوں کی طرح نازو کے تتلیوں جیسے نازک بدن پر ٹوٹ پڑتے۔ اب ان بھیڑیوں کی تعداد چار ہوچکی تھی منشی عید محمد کا بیٹا جو کہ ان دونوں کو اپنی گاڑی پر یہاں لایا تھا اب اس کھیل کا باقاعدہ حصہ تھا۔ نازو پہلے پہلے تو بہت چیخی چلائی لیکن اس کی آواز کو سننے کو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ آبادی سے ہٹ کر ہونے اور تمام دروازے کھڑکیاں بند ہونے کی وجہ سے اس کی آواز جیسے کمرے کے اندر ہی دب کے رہ گئی تھی۔ وہ بے سدھ ہو کر گر پڑتی اور کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد ہوش بحال ہوتے۔ ہوش میں آتے ہی پھر وہی مشق تھی جو وہ پچھلے کئی دنوں سے کررہی تھی۔ آس پاس مکمل خاموشی اور گہرا سناٹا تھا جو رات میں مزید گہرا اور خوفزدہ کرنے والا ہوجاتا۔
چاروں نے رات کے وقت پہرے داری کی ترتیب بنا رکھی تھی۔ اور اس پر نظر رکھتے تھے۔ اسی سہولت سے حبیب دو چار بار گاؤں کا چکر کاٹ آیا تھا۔ پنچائیت میں یہ بات واضح تھی کہ وہ شہر آڑھتی سے پیسے وصول کرنے گیا تھا۔ اس کا ابھی تک نازو کے گھر سے بھاگنے کے معاملے میں کوئی تعلق ثابت نہ ہوتا تھا۔ اس نے اپنے باپ اور پوری پنچائیت کو قسم کھا کر یقین دلایا کہ اس کا نازو سے نہ تو کوئی سمبند تھا نہ وہ اس میں دلچسپی کوئی دلچسپی رکھتا تھا۔ جس پر چوہدری شاہو مزید سرخرو ہوگیا تھا۔۔۔
پنچائیت سے ہمت ہار کر عبدالشکور نے اپنے کچھ ذرائع سے معلوم کروایا تو پتہ چلا کہ نازو شاہی مسجد لاہور کے پچھواڑے میں دو گلیاں چھوڑ کر زلیخا بائی کے کوٹھے پر رہ رہی تھی۔ جہاں وہ نگینے کی سی مثل ہو گئی تھی۔
حبیب نے جب اس میں مزید دلچسپی کھودی تو بلا سر سے اتارنے کو اپنے ایک دوست سلیم بٹ سے کہلوا کر تمام روداد زلیخا بائی کے گوش گزار کردی۔
جس پر زلیخا اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئی۔۔ جب زلیخا نے نازو کو دیکھا تو کسی ماہر سنار کی طرح کسوٹی پر پرکھ کر اس سونے کی ماہیت کا اندازہ لگانے لگی۔ اسے یہ تتلی بہت بھائی۔ کسی بڑ بڑ کی ذمہ داری سلیم بٹ کے سر تھی۔ حبیب کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جاتے جاتے پچاس ہزار بھی ہاتھ لگ گئے۔ نازو شاہی محلے پہنچ کر پہلے تو دو چار دن کتراتی رہی۔ اور دیگر طوائفوں سے دور رہنے لگی جن میں زلیخا بائی کی دو جوان بیٹیاں نازش اور مہ پارہ بھی شامل تھیں۔ لیکن جب اس نے ان کے اور اپنے عمل میں حد درجہ مماثلت پائی تو یہاں کے ماحول میں رچ بس گئی۔ شاید وہ مزید کچھ مزاحمت کرتی یا وہاں سے بھاگ نکلنے کا کچھ خیال دل میں لاتی مگر اب یہ خواہش معدوم ہوچکی تھی۔ وہ بخوبی اندازہ لگا چکی تھی کہ پیرووالا میں اب اس کے نام کے ساتھ کیسے کیسے قصے کہانیاں جنم لے چکے ہونگے۔ اس لیے اب گھر لوٹنا فضول تھا۔ اب وہ ایسی مشق کی عادی ہوچکی تھی جب تک کوئی جواں سال نیا مرد اس کے آزاربند کو ہاتھ نہ ڈالتا وہ بے چین سی رہتی۔۔۔۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی عینی شاہد اور واحد گواہ تھی کسی سے کہنا بھی اپنی قدر مزید گھٹانے کے مترادف تھا۔۔۔
عبدالشکور نے تھانیدار حیات خان کے توصل سے زلیخا بائی کو نازو کی واپسی کی درخواست کی تو اس نے اپنی ادا کردہ رقم کا مطالبہ کردیا۔۔ سکینہ کے بچے کچھے زیور جو پہنے ہوئے ہونے کی وجہ سے نازو کے ہاتھ نہ لگ سکے تھے بیچ کر پچاس ہزار کا انتظام تو کردیا گیا۔ مگر اب نازو تھی شاہی محلہ نہ چھوڑنے پر بضد تھی۔ وہ بھلے قصبے پیرو والا میں پیدا ہوئی تھی پر اب اس بلبل کی طرح تھی جس کا چمن اجڑ چکا تھا۔ اب وہ جہاں بھی رہتی وہ اسکا گھر تھا۔
تھوڑی بہت تگ ودو کے بعد عبدالشکور اسے واپس گھر لانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب قصبے اور محلے میں پہلے سے زیادہ قصہ گوئی کے سلسلے چل نکلے تھے۔ روزانہ درجنوں محلے کی عورتیں سکینہ کے گھر آتیں اور طرح طرح کے سوال و جواب سے کچوکے دیتی رہتیں۔
عبدالشکور نے یہ حالت دیکھی تو اپنے بڑے بھائی کے بیٹے بشیرے سے نازو کی شادی کروا دی۔ جو دو گاؤں چھوڑ کر سید والا میں رہائش پذیر تھا۔ کچھ دن سکون میں گزرے مگر قصبے کے قصے اس کے نئے گھر کی دہلیز تک پہنچ چکے تھے۔ اس اذیت میں ایک سال گزارنے کے بعد نازو پھر شاہی محلے جانے کا ارادہ کر چکی تھی۔ زلیخا بائی نے اسے شاہی منزل سے نکلتے وقت یہ باور کرایا تھا کہ اگر وہ کسی بھی وجہ سے دوبارہ واپس آنا چاہے تو اس کے گھر کے دروازے ہمیشہ نازو کے لیے کھلے ہیں۔
اسی عرصے میں حبیب بھی شادی کرچکا تھا۔ نازو آخری بار اپنے ماں باپ سے ملنے کے بعد تیز قدموں کے ساتھ قصبے سے نکلنے کو چلتی جارہی تھی کہ اچانک حبیب نظر آیا جو بازار میں اپنی ڈیڑھ سال کی بیٹی کو کندھوں پر بٹھائے چلا آتا تھا۔ یہ وہی بازار تھا جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اب پھر دونوں کا آمنا سامنا تھا۔ جسم تو ایک دوسرے سے خوب واقف تھے مگر روح کا دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔۔ نازو کو اچانک سامنے پا کر ایک بار تو حبیب چونک سا گیا کہ کہیں نازو کوئی تماشا نہ کھڑا کردے۔۔ مگر۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ نیچے کر لیا اور اپنی اپنی راہ چلتے رہے۔۔۔۔ ایک لمحے کو نازو نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو حبیب کی بیٹی اس تیز قدموں چلتی عورت کو حیرت سے دیکھتی جارہی تھی۔۔۔