1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. پَکے کوٹھے

پَکے کوٹھے

دایا دیندار ہانپتا ہوا چوھدری خیر محمد کے ڈیرے پر پہنچا۔ جیسے ہی سانس بحال ہوئیں تازہ حقے پر ٹوٹ پڑا۔ ڈیرے پر جلتی دوپہر میں مستریوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کا تانتا بندھا تھا۔ ٹھیکیدار فضل قریشی بھی راج مستری اجمل شاہ کے ساتھ حویلی میں جاری کام پر مول تول میں لگا ہوا تھا۔ بھادوں کی تلخ دوپہریں مستریوں اور مزدوروں کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھیں۔ چوہدری خیر محمد نے دو ماہ بعد اپنے چھوٹے بیٹے چوہدری شفیق کی شادی خانہ آبادی کے سلسلے فضل قریشی کو حویلی کی تعمیر مکمل کرنے کاالٹی میٹم دے رکھا تھا۔ اس قہر کی گرمی میں ٹخنوں تک پسینے میں شرابور مزدور تندہی سے کام میں جتے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی جب نڈھال ہورہتے تو کچھ دیر کے لیے چوہدری خیر محمد کے ڈیرے پر لگے شہتوت اور نیم کے درختوں کی چھاؤں میں آرہتے۔ جہاں بان کی چارپائیوں پر ہر وقت کوئی نہ کوئی نیم دراز رہتا۔
دایا دیندار جو ابھی کھیتوں سے لوٹا تھا دم بھرنے کو وہ بھی اس گھنی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔ یہاں کا ایک اور فائدہ یہ تھا کہ حقہ ہر وقت تازہ دم ملتا. گارے مٹی سے لتھڑی دھوتی پر اس نے جا بجا سوراخوں والی بنیان پہن رکھی تھی۔ جس پر پسینے کی وجہ سے داغ اور سفید دھبے بن گئے تھے۔
دیندار کا بس نام ہی دیندار تھا۔ مذہبی معاملات میں خاصا کند ذہن واقع ہوا تھا۔ مسجد اور مولوی صاحب سے اس کا واسطہ عیدین، جمعہ، جمعرات، گیارہویں جیسے دنوں کے بعد کم کم ہی پڑتا تھا۔ نمازوں میں خاصا بخیل واقع ہوا تھا۔ ہاں کبھی کبھار علی الصبح تلاوت کا اہتمام کرلیتا۔
دیندار حیرت اور حسرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ کچی حویلی کو دیکھ رہا تھا جس کو گرانے کا عمل جاری تھا۔ اس بات نے شاید اس کے دل میں بھی پکے کوٹھے کا ارمان بھر دیا تھا۔ اسی معدوم خواہش میں مبتلا حقے کی نَے ہاتھ میں دابے دیندار کچھ لمحے ماورائی کیفیت میں حقہ گڑ گڑاتا رہا۔
آج گھر آیا تو دائی حاکم روز کے معمول مطابق محلے کی عورتوں کے ہمراہ تنور پر روٹیاں لگانے میں مگن تھی۔
دایا دیندار خاموشی سے توت کی چھاؤں میں پڑی چارپائی پر دراز ہوگیا۔ اسی لمحے اس کی نگاہ کچے مکان کی طرف اٹھ گئی۔ دل ہی دل میں جیسے وہ اسے پختہ گھر کی تعمیر کے ارادے سے آگاہ کر رہا ہو۔ کہ اب مون سون، کلر تھور سے اس کی دیواریں کھوکھلی نہیں ہوں گی۔ جنہیں اکثر دائی حاکم اپنے بڑے بیٹے کالے خاں کے ساتھ مل کر لیپتی رہتی تھی۔ یہ دائی حاکم کا کمال تھا کہ مکان کے اندر اس کا سلیقہ بولتا تھا۔ دائی حاکم نے مکان کے سن رسیدہ فرنیچر کو، ٹرنک اور اکلوتی پیٹی جو وہ دائے حکیم کے گھر سے عجلت میں لائی تھی وضع ساری سے سنبھال رکھا تھا۔ وہ میکے کی ہر چیز کانچ کے برتن کی طرح سنبھال سنبھال رکھتی۔ اس کو جیسے اس کچے مکان اور کہن سال فرنیچر سے والہانہ عشق تھا۔ ادھر دایا دیندار تھا کہ چوہدری خیر محمد کی پکی حویلی کے سحر سے نہ نکل پایا تھا۔
وہ اسی سوچ میں غرقاب تھا کہ دائی حاکم تنور سے فارغ ہوکر دائے دیندار کی چارپائی کے برابر والی چارپائی پر اپنا سارا سامان دھر کےجھٹ سے سلور کا ڈول نلکے سے بھر لائی۔ دائے دیندار کے ہاتھ دھلانے کے بعد وہ دونوں اپنی اپنی چارپائی پر براجمان ہوگئے۔
اس نے دائے حاکم کو چھابی میں روٹی رکھ کے دی اور پھر دائی حاکم ایک بھرپور توجہ سے چنگیر میں دھری روٹیاں گنتی جاتی اور دایا حاکم کمزور دانتوں میں تنور کی روٹیاں چباتا جاتا۔ دائی حاکم کا خاصا یہ تھا کہ محلے کی عورتیں جو روٹیاں لگوانے آتیں احتراماً اسے اپنے اپنے گھر سے سالن کا ایک کٹورا لادیتی تھیں۔ یوں دوپہر کے کھانے کا اچھا بندوبست ہوجاتا تھا۔ کئی ایک بار دایا دیندار اس پر خفا بھی ہوا پر وہ اس سے نہ رکی۔
دایا دیندار اپنے اندر پھوٹتی تمنا کی نئی کونپل کو سینچنا چاہتا تھا یوں وہ دائی حاکم سے مخاطب ہوا" بھلیے لوکے! کاہے اتنا جتن کرتی ہے۔ کبھی آرام بھی کرلیا کر اب یہ تیرے بس کا کام نہیں رہا یہ تنور، چولہا چونکا چھوڑ اور اب ایک نوں لے آ جو تیرے سارے کام کرے۔ تیرا کالے خاں اب جوان ہوگیا ہے اور اب تو خیریت سے ہزار روپے ماہوار چوہدری بشیر کے ہاں سے تنخواہ بھی اٹھانے لگ گیا ہے۔ "
دائی حاکم نے روٹیوں کی الٹ پلٹ تھوڑی دیر کو موقوف کی اور کہنے لگی " ہائے وے ہائے! تجھے آج کے ہوگیا کالے کے ابا! چنگی بھلی تو ہوں میں۔ لیکن دوسری بات تمہاری ٹھیک ہے ماسی مراداں ہے نہ وہ جسکا پتر ذیلداروں کا منشی ہے۔ اس کی دھی ہے بڑی نیک بخت۔ میں کل ای بات کرتی ہو اس سے۔ "
دیندار چونکتے ہوئے بولا " ارے واہ بھئی نوں بی پسند کر لئی اور ہمیں بتایا بھی نہیں کسی نے۔ تو میں کل ای بھٹے والوں سے بات کرتا ہوں. "
دائی حاکم نے بوکھلائے ہوئے انداز میں جواب دیا۔ " جھلا تو نہیں ہوگیا دیندار! بھٹے والوں سے کس کی بات کرنی ہے تیں؟ "
"او نیک بختے پکی اینٹوں کی بات جو کرنی ہے۔ خیر سے دھی رانی کچے کوٹھے میں تھوڑا نہ رہے گی؟ "
دائی حاکم نے مرجھائے ہوئے انداز میں چنگیر پرے رکھتے ہوئے جواب دیا " ماڑے بندے کو اس طرح کے چونچلے زیب نہیں دیتے۔ کل کے خبر کے حالات ہوویں۔ "
تو فکر نہ کر مالک سب چنگی ای کرو۔ " دیندار نے حتمی فیصلہ سنانے کے انداز میں کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے چھابی دائی حاکم کو لوٹا دی اور سلور کے ڈول سے پینے کا پانی انڈیلنے گا۔
حکمت کی رو سے پانی پینے کی بہت سی متفرقات سہی پر غریب آدمی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے مطابق تو سب نے ایک جگہ ہی جانا ہے تو کیا آگے کیا پیچھے۔
اس دن کو گزرے ڈیڑھ ماہ ہوگیا تھا۔ چوہدری خیر محمد کی پکی حویلی تقریباً تیار ہوچکی تھی۔ اب حویلی کے رنگ روغن اور آرائش کا کام آخری مرحلے میں چل رہا تھا۔ راج مستری گاہے گاہے چلا کر سب کو عندیہ دیتا کہ" ٹھیکیدار صاب نے کہا ہے دو دونوں میں کام مکمل کرنا ہے. چوہدری صاحب کے بیٹے چھوٹے چوہدری صاحب کی شادی جو ٹھہری خیر سے اگلے ماہ۔ چوہدری صاب محرموں سے پہلے پہلے شادی کا کام نبیڑنا چاہتے ہیں اس لیے ہاتھ پاؤں چلاؤ۔ "
دیندار ماچھی نے حویلی کو بنیادوں سے اٹھ کر ہوا میں بلند ہونے تک کا سارا مرحلہ آنکھوں سے دیکھا تھا۔
مزدوروں اور مستریوں سے بات چیت اس کا مشغلہ ہوچلا تھا۔ کوٹھی پر ایسا دل پھینکا کہ ایک دن چوہدری خیر محمد کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ کہنے لگا "چوہدری صاحب کچھ رقم ادھار چاہیے۔ پتر کی شادی کرنی ہے آہستہ آہستہ چکتا کردوں گا۔ " چوہدری خیر محمد دل کا بادشاہ تھا اس نے حامی بھر لی کہ گندم شہر بھیجی ہوئی ہے جیسے ہی آڑھتی سے اس کی ر قم آتی ہے وہ دس ہزار اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ "دیکھ بھائی دینے تجھے پتہ ہی ہے حویلی پہ اور شادی پہ چوکھا خرچہ ہوگیا ہے۔ یہ بھی غنیمت سمجھ۔ "
دائے دیندار کی گھر میں اور تو کوئی جمع پونجی نہ تھی۔ بس ایک کیلی بھینس تھی جو گھر کی تمام ضرورت پر مکمل تھی۔ دائی حاکم اس کے دودھ سے تمام کام نبیڑتی تھی۔ گھر میں دہی کی ضرورت، صبح کو لسی، چائے، شام میں کچی لسی کے علاوہ دائی حاکم ایک آدھ سیر زوار دودھی کو بیچ بھی دیا کرتی تھی جس سے گھر کا روزانہ کا خرچ نکل آتا۔ اس کے علاوہ دائی حاکم نے گھر کی ضرورت کو پانچ سات مرغیاں، دو چار بکریاں بھی ادھر ادھر سے لے رکھی تھیں۔
دائے دیندار نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کیلی بھینس کی قربانی دے ڈالی۔ بھینس کی نسل اور دودھ کی پیداوار دیکھ کر بیوپاری فیاض قریشی نے اسے مبلغ پچیس ہزار ادا کیے۔
جب یہ بات دائی حاکم کو معلوم پڑی تو پہلے تو اس نے خاصی ناگواری کا اظہار کیا پھر شوہر کی رضا میں خاموش ہوگئی۔ اس معاملے کو لے کر ایک دن دائی حاکم پھٹ پڑی " ہمارے پُرکھوں کی عمریں بیت گئیں کچے مکانوں میں۔ زمانے کو بھی پتہ نہیں کیا ہوا لگ گئی ہے کہ اس طور اندھا دھند چل پڑا ہے۔ جہاں تک مجھے نظر آتا ہے یہ پکے مکان کہیں رشتہ داریوں میں پکی دیواریں نہ کھڑی کرنے لگ جائیں۔ کچی دیوار تو آسانی سے ڈھے جاؤے مجھے یہ تو گرتی نظر نہ آوے۔ "
دائے دیندار نے بھی حقہ گڑ گڑا تے ترکی بہ ترکی جواب دیا
"تو کاہے فکر کردی ہے کملی روح۔ جن دیواروں کی تیں بات کرے وہ تو آج کے کل کھڑی ہوجاویں ہیں۔ مکان چاہے کچے رہیں کہ پکے۔ "
دیندار کو حقیقی فکر تب لاحق ہوئی جب چوہدری بشیر نے صبح صبح اسے آن لیا اور بتایا کہ کالے خان اکثر راتوں کو ڈیرے سے غائب رہتا ہے۔
اس سے پہلے بھی دائی حاکم اسے بتا چکی تھی کہ کالے خاں محلے اور گاؤں کے اوباش نوجوانوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا پایا گیا ہے۔ دائی حاکم کی فکر بڑھتی جارہی تھی۔ لیکن دائے دیندار نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ " اب ہمارے بچے کیا اپنے گلی محلوں میں نہیں گھومیں گے تو کیا آسامناں پہ گھومیں گے۔ اس عمر میں بالکوں کا لہو جوش مارتا ہے تو فکر نہ کریا کر۔ "
لیکن ادھر جیسے سن بلوغت کی دہلیز سے قدم آگے کو بڑھنے لگے تھے کالے خان کی بیٹھکوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگیا تھا۔
ویسے تو دیندار نے آس پاس کے جان پہچان والوں سے ادھار بندوبست کرکے پکا کوٹھا تیار کرلیا تھا جسے وہ پہروں مُسرت اور رشک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا۔
اب دونوں کو کالے خان کی فکر گھیرے رہتی تھی۔ دایا دیندار چارپائی پر تکیے کی اوٹ لگائے بیٹھا تھا اور دائی حاکم اس کی پائندوں میں بیٹھی کہیں گہری سوچ میں محو تھی۔ شام کی سرخی ابھی باقی تھی سورج غروب کی جانب رواں دواں تھا بالکل ایسے جیسے بیچ ساگر کوئی کشتی ہچکولے کھاتی یہ جاتی کہ وہ جاتی۔
کہہ اتنے میں دایا دیندار بول اٹھا
"بھلیے لوکے! کالے خاں اب واقع ہی پریشان کرنے لگ گیا ہے۔ صبح سویرے چوہدری بشیر نے آن پکڑا تھا۔ کہہ رہا تھا کالے خان اکثر راتوں کو ڈیرے سے غائب ہوتا ہے۔ اس کے کرتوت کچھ بھلے نہیں ہیں۔ اگر اس نے یہ روش ترک نہ کی تو پھر وہ کوئی اور بندہ کام پہ رکھ لے گا پھر مجھ سے گلہ مت کریو۔ "
"میں تو پہلے ہی آپ کو بتا چکی کہ چھورے کے لچھن بگڑ رہے اس کا جتی جلدی ہوسکے کم نبیڑ۔ اس تے پہلے کہ چھورا ہاتھ میں سے نکل جاوے اور بہت دیر ہوجائے۔ ارے اس نور محمد نائی کے بیٹے کو دیکھ لو پرسوں بختو کمہارن کی بیٹی بھگا لے گیا کم بخت۔ اسی کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اپنا کالے خان بھی۔ اس کی ماں آئی تھی کل شکایت کرنے۔ اب تو جیسے مناسب سمجھے سو کر۔ "دائی حاکم گہرے فکر کے انداز میں بولی۔
دیندار نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا "تے پھر تیں دیکھدی کیا ہے؟ ماسی مراداں سے بات کر کہ ہم اگلے ہفتے کی جمعرات کو برات لے آئیں گے۔ "
شادی میں دو دن باقی تھے دائی حاکم نے گھر کو بڑی محنت سے شادی گھر بنادیا تھا۔ وہ تو یہاں تک کہ بہو کے جہیز کا سامان بھی دیکھ آئی تھی۔ میاں بیوی دونوں اس موقع پر خوش تھے۔ بس کالے خان بجھا بجھا سا رہنے لگا تھا۔
یہ سب چل رہا تھا کہ صبح صبح چوہدری بشیر پھر نازل ہوگیا۔ آج اس کے تیور پہلے سے بھی بگڑے ہوئے تھے۔ اس نے دائے دیندار کو مخاطب کیا "تمہارا سپوتر کل شام سے غائب ہے کہیں دیکھا نہیں گیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ میرے گھر سے پانچ ہزار نقد اور اس کی بیوی کے گہنے بھی لے اڑا ہے۔ "
دیندار نے اس سے معافی مانگنا چاہی لیکن وہ کچھ سنے بغیر یہ کہہ کے چل دیا کہ "آج شام میں چوہدری خیر محمد کے ڈیرے پر بیٹھک ہے اس لیے وہ وقت سے پہلے پہنچ جائے اور کوشش کرکے اپنے بیٹے کا سراغ بھی لگائے۔ "
وہ ابھی چند قدم دور گیا ہی تھا کہ گامن دھوبی اچانک سے نمودار ہوا اور کہنے لگا "ارے بھائی دینے! کچھ سنا تم نے؟ تمہارے کالے خان کو لے کر گاؤں میں چرچا ہورہا ہے کہ وہ ممتاز میراثی کی بیٹی کو بھگا کر لے گیا ہے۔ گاؤں کے کچھ نوجوانوں نے اسے سائیکل پر گاؤں کی نکڑ پر دیکھا تھا کل شام۔ تب سے دونوں کا کچھ اتا پتا نہیں۔ "
وہ دونوں اسی بات میں لگے تھے کہ چوہدری خیر محمد کا بڑا بیٹا سکوٹر بھگاتے آن پہنچا۔
اسے نے سکوٹر روکا اور سرسری دعا سلام کرتے یہ کہہ کر نکل گیا کہ
"گاؤں میں آپ کے بیٹےاور ممتاز میراثی کی بیٹی کو لے کر کہرام مچا ہے۔ ابا جان نے شام کو ڈیرے پہ بلایا ہے۔ پنچائیت ہے۔ چوہدری بشیر بھی وہیں آرہا ہے۔ "
شام تک گھر میں افسوس اور طنز کرنے والوں کی ریل پیل رہی۔ سب اسے کیلی بھینس کی بددعا کہہ رہے تھے۔ کوئی تو پکے کوٹھے کو دیکھ کہ کہتا مجھے تو یہ بدشگون لگتا ہے۔ باقی گاؤں والوں کو بھی فوراً اس روش کو ترک کردینا چاہیے۔
دائی حاکم اس وقت سے اپنی قسمت پر روئے جاتی کہ ہائے اس نے ایسا کونسا برا کام کیا جو اس کو اسکی اتنی بھیناک سزا ملی۔
شائید اس کو وہ لمحہ پھر سے یاد آنے لگ گیا تھا جب وہ بھی دو دہائیاں قبل دائے دیندار کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ پھر پکڑے جانے پر پنچایت نے دونوں کی زبردستی شادی کرانے کا فیصلہ صادر کیا تھا۔
جوں جوں شام ہوتی جارہی تھی دائے دیندار کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ جس ڈیرے پر وہ چھاتی چوڑی کرکے بیٹھتا تھا اب سر جھکائے بیٹھا ہوگا۔ لوگ کیا کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوہدری خیر محمد کیا سوچے گا اس کے بارے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس یہ سوچ تھی کہ چوہدری خیر محمد کی حویلی کی طرف جاتے راستے کو ترک کرکے اس نے خونی نہر کے پل کی طرف جانے والی کچی سڑک پر چلنا شروع کردیا۔

عامر ظہور سرگانہ

Aamir Zahoor

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔